بلند پرواز سٹاک ایکسچینج اور تیز رفتار مہنگائی
حکومت یا تو سٹاک ایکسچینج کا عوام کو میکنزم سمجھائے یا پھر یہ روز روز کے بریکنگ نیوز والے دعوے بند کرے جن میں سٹاک ایکسچینج کی نفسیاتی حد کوعبور کرنے، بلکہ اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹنے کا بتایا جاتا ہے اور ساتھ ہی معیشت کی بہتری پر قوم کو مبارکباد دی جاتی ہے۔ شیدا ریڑھی والا ہی نہیں، ہر محنت کش، مزدور، کسان،رکشہ، ٹانگے والا یہ پوچھ پوچھ کر ہلکان کر دیتا ہے بابو جی یہ سٹاک ایکسچینج کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہی تھیں جن میں اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹنے کا ذکر کیا جا ہا تھا تو میرے مالی نے یہ خبر سنائی، گھی 80 روپے کلو مہنگا ہو گیا ہے۔آٹا بھی مہنگا ہو گیا ہے،سوئی گیس کا بل بھی زیادہ آیا ہے،بجلی کا بل تو موسم بہتر ہونے کے باوجود بہت آ رہا ہے۔ پھر پوچھنے لگا کیا سٹاک ایکسچینج اوپر جانے سے اشیاء کی قیمتیں بھی اوپر جاتی ہیں؟ اب میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا نہیں ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اس لئے گول مول جواب دے کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ اصل میں اِس وقت سب کچھ بالا بالا ہی ہو رہا ہے،عوام کی سطح پرکوئی ریلیف پہنچ رہا ہے اور نہ انہیں مہنگائی کے عذاب سے نجات مل رہی ہے۔ سب سے زیادہ ات ادویہ ساز کمپنیوں نے مچائی ہوئی ہے۔کل میں مرغی کا گوشت لینے گیا تو اُس نے بتایا اُسے دو ہزار روپے جرمانہ ہوا ہے،کیونکہ اُس نے پانچ روپے فی کلو ریٹ زیادہ لکھا ہوا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں گوشت صاف ستھرا کر کے اس بھاؤ بیچتاہوں پھر وہ کہنے لگا بابو جی آپ اخبار میں لکھتے رہتے ہیں،کبھی اس بارے میں بھی لکھیں کہ ریڑھی والوں، گوشت کا ٹھپہ لگا کے روزی کمانے اور گلی محلے میں دکانیں کھول کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والوں پر یہ مجسٹریٹ صاحبان تو حملہ آور ہوتے ہیں،اُن پر جرمانے بھی لگا جاتے ہیں،لیکن یہ جو دوائیاں بنانے والی کمپنیاں ہر روز کے حساب سے قیمتیں بڑھا رہی ہیں، ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا،کیا یہ سچ ہے؟ میں نے کہا ارے تم کن چکروں میں پڑ رہے ہو۔ چپ چاپ اپنا گوشت بیچو اور بچوں کی روزی لے کر گھرجاؤ۔ میری یہ بات سن کر وہ مایوس نظر آیا۔شاید مجھے بھی وہ اُسی مافیا کا کارکن سمجھ رہا ہو جس نے واقعی اس ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج کا بازار گرم کر رکھاہے۔
حکمرانی دعوے چاہے جو بھی ہوں، زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک کی80فیصد آبادی کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی وہ جسم وجاں کا رشتہ کیسے برقرار رکھیں۔پہلے تو حکمرانوں کی طرف سے تسلی کے دو بول بھی سننے کو مل جاتے تھے اب تو وہ جسم و جاں کا رشتہ کیسے برقرار رکھیں،پہلے تو حکمرانوں کی طرف سے تسلی کے دو بول بھی سننے کو مال جاتے تھے اب تو وہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں وہ ایسی آئینی ترامیم کے خبط میں مبتلا ہیں جن کا عوام کو براہِ راست کوئی فائدہ ہی نہیں، بجٹ اجلاس کے بعد سے اب تک ایوان میں کسی ایک دن بھی مہنگائی کے مسئلے پر بات نہیں ہوئی۔یوں لگتا ہے اشرافیہ کاجہان اور ہے اور عوام کا جہاں اور ہاں سٹاک ایکسچینج میں بہتری کی خبریں ضرور آ رہی ہیں، مگر عوام کو ان سے کیا غرض، انہیں تو اپنے زمینی حقائق کیساتھ زندہ رہنا ہے اور زمینی حقائق ایسے ہیں جو اُن کی ہر نئے دن کے ساتھ نیندیں اُڑا دیتے ہیں۔ایک دور تھا جب ہم خریداری کے لئے بازار جاتے تو وہاں گدا گروں کی یلغار گھیر لیتی تھی یہ منظر اب بھی ہر جگہ نظر آتا ہے، مگر اب ایک اور طبقہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ یہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں،جنہیں مہنگائی نے مڈل کلاس سے لوئر مڈل کلاس میں پہنچا دیا ہے۔ان میں زیادہ تر سفید پوش ہیں،تنخواہ دار ہیں،اپنا بھرم رکھا ہوا ہے۔محنت مزدوروں والا کام بھی نہیں کر سکتے،مجھے ایسے کئی قریب و دور کے جاننے والے ملتے ہیں یا فون کرتے ہیں اور اُن کی دبی دبی زبان میں التجا یہی ہوتی ہے۔ کچھ رقم اُدھار دی جائے، کچھ تو اُدھار کی بجائے مدد مانگنے کی نوبت تک آ جاتے ہیں،میں سمجھتا ہوں ان میں سے کوئی شخص بھی غلط نہیں اور نہ ہی جھوٹ بولتا ہے۔حالات واقعی ایسے ہو چکے ہیں ایک ضرورت پوری ہوتی ہے تو دوسری سامنے کھڑی ہوتی ہے۔زیادہ تر مشکلات اُن لوگوں کی ہیں جن کے بچے پڑھ رہے ہیں،خاص طور پر یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین جب سمیسٹر کی فیس کا وقت آتا ہے تو پریشان ہو جاتے ہیں دو بچوں کی بیکوقت فیس بھرنی پڑے تو پھر قرض لینے کی نوبت آ ہی جاتی ہے،میں خود کئی مخیر دوستوں کو ایسے مستحق بچوں کے فیس واؤچر بھیج کر ادا کرنے کی درخواست کرتا رہتا ہوں اس طرح کے نظام زندگی میں سکون نام کی چیز کہاں رہتی ہے،سب سے زیادہ پریشان یوٹیلٹی بلوں نے کیا ہے،بجلی،گیس، پانی، فون، سیوریج اور محکمہ ایکسائز کے بل اچھے بھلے آدمی کا بجٹ اتھل پتھل کر دیتے ہیں اس کے بعد ان بلوں کا نمبر آتا ہے جو کھانے پینے کی مد میں ادا کئے جاتے ہیں۔دودھ والے کا بل، ماہانہ سامان کا بل، بچوں کے جیب خرچ اور تعلیمی اشیاء کی خریداری کا بل، مکان اگرکرایہ پر ہے تو دوہری مصیبت، ان حالات میں اگر واحد خبر یہ آتی رہے کہ ملک کا سٹاک ایکسچینج بلندیوں کو چھو رہا ہے۔سعودی عربکی طرف سے دو ارب ڈالرکی سرمایہ کاری آ رہی ہے اور ملک میں معیشت کا پہیہ چل پڑا ہے تو عوام پاگلوں کی طرح گھروں سے باہر نکل کر ڈھونڈتے ہیں خوشحالی کدھر آئی ہے۔ معیشت کہاں بہتر ہوئی ہے انہیں تو ہر روز مہنگائی کے ایک نئے حملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سونے پہ سہاگہ جماعت اسلامی والے ہیں، وہ ایسے ایسے خواب دکھاتے ہیں کہ عوام نہال ہو جاتے ہیں،بلکہ اُن کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے،مثلاً اب امیر جماعت اسلامی نعیم الرحمن نے کہا ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں جتنی کم ہوئی ہیں،اُن کے تناسب سے پاکستان میں فی لیٹر قیمت86روپے کم ہونا چاہئے۔اِس سے پہلے وہ بجلی کے بلوں پر بھی دس بیس روپے فی یونٹ کم کرنے کی باتیں کر کے عوام کا دِل گرماتے بلکہ جلاتے رہے ہیں،اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے افراد اتنے سخی نہیں کہ اپنی شاہانہ زندگی کو چھوڑ کر عوام کی زندگی میں آسانی لانے کی کوشش کریں۔ سوچنا وی نہ جی کوئی سوچنا وی ناں۔
٭٭٭٭٭