وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر81
1976ء میں بھولو پہلوان کی صحت کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔ اکی پہلوان اور جاپانی شاہ زور انوکی کے درمیان پاکستان میں ایک بڑا دنگل منعقدہواتھا جس میں انوکی پہلوان نے اکی کو شکست سے دو چار کر دیا تھا۔اکی کی شکست سے صرف بھولو کو ہی صدمہ نہ پہنچا تھا بلکہ رستم ہند امام بخش پہلوان بھی اپنے شاہ زور بیٹے کی رسوائی برداشت نہ کر سکا۔ امام بخش پہلوان کی عمر91برس کے قریب تھی۔ جھریوں سے پاک چہرہ،سفید گھنی مونچھیں، سرخ و سپید رنگت، اس عمر میں بھی اس کی چال میں لرزش شامل نہ تھی۔وقار اور تمکنت نمایاں تھی۔ مگر بھولو کے عوارض اور اکی کی شکست نے اسے بالآخر نڈھال کر ہی دیا اور وہ بستر علالت پر دراز ہو گیا۔ چند ماہ بیماری نے لیے اور رستم ہند سے جی بھر کر بدلے لیے۔12اکتوبر1971ء کو امام بخش رستم ہند کا انتقال ہو گیا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بھولو برادران کے سر سے باپ کی شفقت کا سایہ کیا اٹھا گویا رحمت کا جہاں اٹھ گیا۔ اس کے بعد تو صدمے اور معاشی مسائل بھولو برادران پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے۔اس دوران بھولو پہلوان نے اپنے خاندان کی ڈوبتی ناؤ سنبھالنے کے لیے نئے خون کو آگے بڑھا دیا اور پتوار زبیر عرف جھارا پہلوان کے ہاتھ تھما دی۔
جھارا پہلوان اچھا پہلوان کی اولاد تھی۔اکی پہلوان کی انوکی کے ہاتھوں شکست کے وقت زبیر عرف جھارا کی عمر تیرہ چودہ سال تھی۔اس نے اپنی معصوم آنکھوں سے اپنے چچا کا بازو ٹوٹتے دیکھا تھا۔ اکھاڑے میں اس کی چیخ و پکار سنی تھی۔ ہار پر اپنے بزرگوں کے ندامت زدہ چہرے دیکھے تھے اور وہ خود بھی اس رسوائی پر بلک بلک کر روایا تھا۔
جھارا پہلوان کے ان آنسوؤں کے گواہ بھی حیات ہیں جو12ستمبر1976ء کو کراچی نیشنل اسٹیڈیم میں گرے تھے۔وہ کم سن تھا مگر اسے فتح و شکست کا بھرپور احساس تھا۔تبھی تو جب انوکی نے اس کے چھیالیس سالہ چچا اکی پہلوان کو آرم لاک لگایا تو وہ چلانے لگا تھا۔
’’اوئے میرے چاچے نوں بچاؤ۔ خدا دا واسطہ جے میرے چاچے نوں بچاؤ۔‘‘
چاچا تو نہ بچ سکا مگر جھارا کے اندر ایک آگ سی لگ گئی۔ جب کراچی میں حیدری اکھاڑے میں صف ماتم بچھی تھی تو جھارا پہلوان ناصر بھولو کے ساتھ سینگ اڑائے کھڑا تھا۔
’’ناصر میں چاچے کا بدلہ ضرور لوں گا۔‘‘جھارا نے اپنی آستینیں چڑھاتے ہوئے کہا۔’’ظالم نے میرے چاچے کا بازو توڑ دیا ہے۔ میں اس کی ٹانگیں توڑ ڈالوں گا۔‘‘
’’تو کچھ بھی نہیں کر سکتا جھارے!‘‘ ناصر بھولو نے اسے چڑایا۔دونوں تقریباً ہم عمر تھے اور دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔’’تو انوکی کی ٹانگ جتنا ہے وہ تجھے پلٹا مار کر گرادے گا اور تری ہڈی پسلی کا سرمہ بن جائے گا۔‘‘
’’وہ میرا سرمہ کیا بنائے گا میں اس کی ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘‘جھارے نے مکا ہوا میں لہرایا۔ جھارے نے اپنا زور دار مکا لکڑی کے دروازے پر دے مارا۔ دروازہ چٹخ کر رہ گیا۔’’دیکھا تو نے۔میرے مکے نے دروازہ توڑ دیا ہے۔ اللہ کی قسم میں اس انوکی کے پتر کو سبق سکھا کر رہوں گا۔‘‘
شام کو جب بھولو پہلوان گھر آیا تو ناصر بھولو نے جھارے کی بات سنائی۔
بھولو پہلوان کی غمزدہ آنکھوں میں چمک عود کر آئی۔’’خدا کرے جھارے کے ارادے پورے ہوں۔اب تو تم دونوں پر ہمارا بھروسہ ہے۔تم دونوں کو ہی ہماری لاج رکھنی ہے۔‘‘
’’لاج!‘‘ناصر بھولو نے بھولپن سے کہا۔’’وہ کیسے رکھنی ہے ابا جی۔‘‘
’’دیکھو ناں جس طرح ہم نے بڑے بڑے پہلوانوں کو گرا کر تمہارے دادا کا نام بلند رکھا اسی طرح تم لوگوں نے ہی ہمارا نام رکھنا ہے۔‘‘بھولو نے ناصر کو سمجھایا اور پھر کہا۔’’جاجھارے کو بلاکر لا۔‘‘
ناصر بھولو جھارے کو بلاکر لایا تو بھولو پہلوان ناقدانہ انداز میں اس کا قد ناپنے لگا۔ جھارا کا قد کاٹھ تیزی سے نشوونما پارہاتھا۔بھولو کو اس کے اندر اچھا نظر آیا جو پندرہ برس کی عمر میں ایک جغادری پہلوان بن چکا تھا۔
’’جھارے پتر تو نے جس عہد کا اظہار کیا ہے اس پر قائم رہنا۔تجھے اب انوکی سے اپنے چاچے کا بدلہ لینا ہے۔آج سے تیری زندگی کا مقصد بس یہی ہونا چاہئے۔ سمجھے ہو کہ نہیں۔‘‘
جھارے نے اپنے تایا کو یقین دلایا۔’’تایا ابا! میں تو آج ہی انوکی سے لڑنے کو تیار ہوں۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ورنہ میں اسے کچا چبا ڈالوں۔‘‘
’’تیری حسرت پتر بہت جلد پوری ہو گی۔ بس تو ایک بات کا خیال رکھنا کہ تیرا خاندان اب مصیبتوں کے پہاڑ تلے دب رہا ہے۔ تو نے زندگی کے کسی شغل میں نہیں پڑنا اور ہمیشہ نانک بن کر اپنے عہد کی سچائی پر قائم رہنا ہے۔‘‘
بھولو پہلوان 1967ء میں جب رستم زماں بن کر وطن آیا تھا تو صدر پاکستان محمد ایوب خاں نے ایک ملاقات میں بھولو پہلوان کو کہا تھا۔
’’پہلوان جی چراغ سے چراغ جلاتے رہیں گے تو پاکستان میں دیسی کشتی کا فن قائم رہے گا۔ آپ اپنے بچوں کو درسی تعلیم کی بجائے اکھاڑوں کی تعلیم دیں۔ یہ تیرا احسان ہو گا۔‘‘
بھولوپہلوان نے ناصر اور جھارا کے علاوہ دوسرے بچوں کو بھی سکولوں سے اٹھا لیا تھا اور انہیں دیسی کشتی کے فن سے آراستہ کرنے لگ گیا تھا۔ جھارا اگرچہ ابھی منظر عام پر نہیں آیا تھا مگر نو دس سال سے وہ اکھاڑے کا رسیا ہو چکا تھا اور اپنے سے زیادہ عمر کے پہلوانوں کے پھلکے اڑانے کے قابل ہو چکا تھا۔ جھارا ناصر سے کھلے بدن کا جوان تھا۔اصیل بوٹی جھارے پر تمام تر توجہ کا نتیجہ تھا کہ وہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں طاقت وفن کی پہاڑیاں سر کرنے لگ تھا۔
بھولو نے اب جھارے کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھال لی تھی۔وہ اپنے فن کے ترکش سے داؤ نکال کر جھارے کو ایک زہر بجھے تیر کی مانند مہلک بنا رہا تھا۔ حیدری اکھاڑہ جھارے کی صورت میں دوبارہ روشن ہو گیا تھا۔ رونقیں جم گئی تھیں اور تماشائی گاماں پہلوان،امام بخش اور بھولو برادران کے جانشین زبیر عرف جھارے کے دیدار کرنے کے لیے امڈ کر آنے لگے۔
جھارا پہلوان کی تیاریوں کی خبر کب چھپی رہ سکتی تھی۔ ایک سال بعد ٹھیکیداروں نے بھولو پہلوان کو جھارے کی کشتی باندھنے کی پر کشش ترغیب دینی شروع کر دیں۔بھولو پہلوان جھارے کو ان کے اصرار کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتاتھا۔جب تک وہ اپنا اطمینان نہ کرلیتا وہ جھارے کو میدان نہیں اتارسکتا تھا۔ چند ماہ اور گزر گئے اور بالآخر بھولو پہلوان جھارے کو کندن بنا کر لاہور لے آئے۔
موہنی روڈ کے اکھاڑے پر جونہی جھارے نے قدم رکھے محلے بھر کر چراغاں کر دیا گیا اور دعائے خیر کے لیے محافل سجائی گئیں۔گھر کی پردہ دار خواتین نے مستقبل کے رستم کی نذریں اتاریں اور آیت الکریمہ پڑھے باداموں کی بوریاں جھارے کے لیے وقف کی جانے لگیں۔ جھارے کو نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے بازو پر امام ضامن باندھنے کی رسم ادا کی گئی اور پھر اسے داتا صاحب سلام کروانے لے جایاگیا۔
جھارے کی آمد کے ساتھ ہی ٹھیکیداروں نے بھولو پہلوان کو اس کے خاندانی حریف ملتان کے نامی گرامی شاہ زور حسین بخش ملتانی کے پوتے زوار پہلوان پسر احمد بخش المعروف بخشندہ پہلوان کے ارادوں سے آگاہ کر دیا کہ وہ جھارے سے کشتی کے لیے بے تاب ہے۔
بھولو پہلوان نے تر دو نہ کیا اور معاملات چلانے کی رضا مندی دے دی۔ بالآخر چند ماہ بعد زبیر عرف جھارا پہلوان کی پہلی باقاعدہ کشتی باندھ دی گئی اور دونوں طرف زور شور سے تیاریوں کا آغاز ہو گیا۔(جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر82 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں