سبع المعلّقات
علمائے عجم نے جہاں فقہ، تفسیر، حدیث اور علم الکلام جیسے نادر علوم دنیا کو دیئے تو وہاں ایک علمی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہوئے زمانہ قبل از اسلام کو قطعی طور پر دورِ جاہلیت سے تعبیر کر دیا بعینہ یہی مثال ہمارے ہاں زمانہ قبل از قیامِ پاکستان کے ضمن میں موجود ہے حالانکہ جس عرب معاشرے میں امرؤ القیس، زہیر اور لبید جیسے ذہین شعراء موجود ہوں وہ معاشرہ کیونکر بھلا جاہلیت کا استعارہ ہو سکتا ہے، انسانی جذبات کا بھی کوئی حال نہیں انسان جب عقیدت پر اْتر آئے تو پتھر کو خدا بنا کر پوجنے لگتا ہے اس کے برعکس جذبہِ تنفّر پر قائم ہو جائے تو ہر سچائی کو مروڑ کر رکھ دیتا ہے، سبع المعلّقات دراصل وہ سات شعری مجموعے ہیں جو زمانہ قبل از اسلام خانہ کعبہ کے دیواروں پر آویزاں تھے، صرف، نحو، صنائع معنوی و بدائع لفظی، استعارات، مجاز مرسلات اور ندیر تشبیہات کا مرقع ہیں اور جو آج بھی کلاسیکل عربی سے واقف اصحاب کیلئے وظیفہِ دانش و جمال اور توشہِ رموزِ التفات ہیں، قریباً ڈھائی سال تک میں یہ سات شعری مجموعے عربی ادب کے شائقین کو پڑھاتا رہا اور گزشتہ سولہ سال کی مسلسل وابستگی کے باوجود میری دانش آج بھی سبع المعلّقات کی خیال آفرینی، ندرتِ بیان اور عجائبِ لغات کے کماحقہ ادراک سے معذور و مہجور ہے،
ہمارے وقت میں تو یہ کتاب صرف اور نحو کے بعد مدارس میں پڑھائی جاتی تھی آج کا علم نہیں کیونکہ اب تو عربی ادب کے علماء بھی ڈھونڈنا آسان نہیں رہا، علمائے ادب امرؤ القیس کو سلطان التشبیہات کہتے ہیں میری شدید خواہش تھی کہ میں سبع المعلّقات کے تمام ساتوں شعراء کے قصائد کا نہایت مختصر نمونہ اس مضمون میں شامل کرتا لیکن صرف ایک ہزار الفاظ کی پابندی پر موقوف اس مضمون میں آخر کتنی کوئی تفصیل بیان ہو سکتی ہے پس اگر میں مضمون ھذا کو ایک سیریز کی شکل دے کر دو تین حصص میں کھینچ لوں تو پھر یہ میری طبع کیلئے قریباً ناممکن امر ہے کہ مَیں نے ہمیشہ طبعیت کی اطاعت کی ہے اور طبعیت پر اب اتنا بھروسہ نہیں رہا کہ وہ آئندہ بھی اس قدر خوشگوار ہو گی کہ عربی ادب کے جلیل القدر شعراء کے کلام پر کچھ لکھنے کی متحمل ہو سکے اس لئے جتنا بھی ہے اسی پر اکتفا کریں، سبع المعلّقات کے سات شعراء میں امرؤ القیس، طرفہ بن عبد، زہیر بن ابی سلمی، لبید بن ربیعہ، عمرو ابن کلثوم، عنترہ بن شداد اور حارث بن حلزہ شامل ہیں، کوئی بھی قاری ان تمام مذکورہ بالا شعراء کو گوگل کرکے ان کے علم و فضل سے آگاہ ہو سکتا ہے پھر اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا قطعاً مشکل نہیں رہتا کہ زمانہ قبل از اسلام جاہلیت پر مبنی تھا یا حکمتِ عامہ پر، سبع المعلّقات کا پہلا شاعر امرؤ القیس اپنے قصیدہ میں بیان کرتا ہے
قفا نبک من ذکری حبیب و منزلی
بسقط اللوی بین الدخول فحوملی
اے میرے دونوں دوستو ٹھہرو! ٹھہرو تاکہ ہم اپنی محبوبہ اور اْس کے اِس گھر کو یاد کرکے رو لیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقامِ دخول اور فحومل کے درمیان واقع ہے، قصیدہ بہت طویل ہے میں صرف دو اشعار عرض کروں گا پھر زہیر اور لبید کا کچھ نمونہِ کلام پیش کروں گا اور شاید پھر اس کے ساتھ ہی مضمون تمام ہو جائے،
تری بعر الارام فی عرصاتھا
وقیعانھا کانھا حسب فلفلی
سفید ہرنوں کی مینگنیاں اس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں ایسی پڑی ہیں جنہیں دیکھ کر سیاہ مرچوں کا گمان ہوتا ہے، یہ ہے امرؤ القیس کی رفعتِ تشبیہ، مجھے شدید قسم کی حیرت ہوتی ہے جب میں اچھے خاصے محقق علماء کے منہ سے بھی یہ جملہ سنتا ہوں کہ اصطلاح اللہ خالصتاً ایک اسلامی اصطلاح ہے جبکہ اصطلاح اللہ امرؤ القیس المتوفیٰ پانچ سو چوالیس عیسوی اپنے ایک بیت میں صنعتِ ایقان کے طور پر بیان کرتے ہیں
فقالت یمین اللہ مالک حیلہ
وما اری عنک الغوایہ تنجلی
امرؤ القیس جب اپنی محبوبہ عنیزہ کے خیمے میں گھسا تو عنیزہ امرؤ القیس کو دیکھ کر چونک اْٹھی اور کہنے لگی کہ اللہ کی قسم اب تیرے پاس کوئی عذر نہیں اگر میرے اقارب نے تجھے میرے خیمہ میں دیکھ لیا تو تیری خیر نہیں پس اب میں تجھے ٹوک نہیں سکتی کہ تْو آخری درجے کا خطرہ مول لیکر یہاں پہنچا، پورے قصیدے میں امرؤ القیس کا یہ شعر ہر لحاظ سے عمدہ ہے، اب اس شعر کے فنی محاسن بیان کرنے کیلئے الگ سے ایک مضمون کی حاجت ہے، زمانہ قبل از اسلام کے شعراء کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اس قدر قادر الکلام ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو کلامِ مدحت سے کسی ضعیف المرتبہ کو سلطان الحشم بنا اور کلامِ ہجو سے کسی باوقار کو صاحبِ ذل، یہی وجہ ہے کہ عرب غیر عرب کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے، کلام کی قدرت کو زہیر اپنے قصیدہ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں،
وقد قلتما ان ندرک السلم واسعا
بمال و معروف من القول نسلم
اور بلاشبہ تم دونوں سرداروں نے بہت عمدہ بات کہی کہ اگر ہم کامل صلح بذریعہ مال اور کلامِ مستحسن پا لیں گے تو ہم آپس کی خونریزی سے مامون ہو جائیں گے، زہیر کے بعد میں ایک بیت لبید کے قصیدے میں سے عرض کر دیتا ہوں، زہیر خطائے حس یعنی اپنی نفسیاتی کیفیت کو اس عمدہ صناعی سے الفاظ میں پروتا ہے،
تبصر خلیلی ھل تری من ظعائن
تحملن بالعلیاء امن فوق جرثم
اے میرے دوست! نظر جما کر دیکھ کیا تْو ان ہودج نشین عورتوں کو دیکھتا ہے جو جرثم سے اوپر بلند مقام میں اونٹوں پر سوار ہو کر جا رہی ہیں، اس بیت میں زہیر اپنی نفسیاتی کیفیت بیان کر رہا ہے کہ میری محبوبہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ کجاووں میں سوار یہاں سے جا رہی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرثم کی بلندی سے گزر رہی ہے یہ تصور دراصل زہیر کی غایتِ مدہوشی ہے ورنہ محبوبہ تو یہاں سے کب کی جا چکی، میری خواہش تھی کہ میں یہاں پانچ اور شعراء کا بھی ایک ایک بیت پیش کر دیتا لیکن سر دست مضمون اس کی اجازت نہیں دیتا اور ویسے بھی طویل ترین قصائد میں سے ایک ایک بیت کسی بھی طور شاعر کی فنی اوج کو بیان نہیں کر سکتے۔ پس اگر عربی زبان کی حقیقی وسعت اور اس کی وضع و صنعت سے کماحقہ مستفید ہونا ہے تو بہت ضروری ہے کہ سبع المعلّقات کے تمام قصائد کو بغور پڑھا اور سمجھا جائے۔