مرکز ِ نگاہ،مولانا فضل الرحمن۔پیپلزپارٹی کے حوالے سے وضاحت!

مرکز ِ نگاہ،مولانا فضل الرحمن۔پیپلزپارٹی کے حوالے سے وضاحت!
 مرکز ِ نگاہ،مولانا فضل الرحمن۔پیپلزپارٹی کے حوالے سے وضاحت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”دیکھتے ہیں،اُدھر جاتا یا اِدھر آتا ہے، پروانہ“ تحریک انصاف سے جاری جمعیت علماء اسلام(ف) کی میٹنگوں اور امیر جماعت مولانا فضل الرحمن کے ”دبنگ“ بیانات کی وجہ سے سیاسی میدان میں ہلچل مچی اور اب تک جاری ہے،مولانا اور تحریک انصاف کی جاری ملاقاتوں سے یہ تاثر پکا ہوا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت مخالف پکا اتحاد بن جائے گا، لیکن مولانا کی حکمت عملی سے معاملہ گول پوسٹ سے باہر کارنر ہٹ تک ہی رہا،میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن بہت ”ہوشیار“ ہو چکے اور اب وہ جلدی سے کسی دام میں آنے والے نہیں، ادھر حکومتی ایوانوں میں انتظار کی پالیسی رہی اور جب مولانا کی جماعت اور تحریک انصاف کی کمیٹیوں میں یہ طے ہو گیا کہ ایوان میں دونوں جماعتوں کے اراکین باہمی طور پر مل کر چلیں گے اور مشاورت سے متفقہ حکمت عملی پر عمل کریں گے تو اس خبر نے ایوانوں میں ہلچل پیدا کی اور پہل پھر صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے حصے آئی اور وہ کابینہ کے ”آزاد رکن“ وزیر داخلہ محسن نقوی کو ساتھ لے کر مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر لینڈ کرگئے اور ان کو بڑے خلوص سے ”بندوق“ کا تحفہ بھی دیا۔یوں جب مولانا نے اپنی خوشدلی والی بھرپور مسکراہٹ سے استقبال کیا،بازو وا کئے اور گلے ملے تو  پھر وہی ہوا جو ایسے مواقع پر ہوتا ہے۔ اب ان حضرات کے درمیان اکیلے ہونے والی ملاقات کے بارے میں خود ان کی طرف سے تو کوئی انکشاف نہیں کیا گیا،لیکن میڈیا کے قیاس آرائی والے گھوڑے دوڑتے رہے اور بہت کچھ کہا گیا،جہاں تک میرا تعلق ہے تو ہر دو حضرات کے مزاج سے قدرے شناسائی کا دعویدار ہوتے ہوئے یہ عرض کر سکتا ہوں کہ اس سے اگلے ہی روز وزیراعظم محمد شہباز شریف کی آمد اسی ملاقات کا نتیجہ تھی،اور جہاں تک وزیراعظم محمد شہباز شریف والی ملاقات کا تعلق ہے تو اس میں برف اس حد تک پگھل گئی ہے کہ وزیراعظم نے آن دی ریکارڈ یہ کہا ”ہم مولانا کے تحفظات دور کریں گے“ اس بیان کا واضح مطلب یہی بنتا ہے کہ مولانا نے ”اپنے تحفظات“ سے صدر آصف علی زرداری کو آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اپنی روایتی مسکراہٹ سے کہا کہ وزیراعظم بھی آئیں گے اور ہ تحفظات سن کر دور بھی کریں گے۔ صدرِ مملکت یوں بھی اپنے ساتھ ایک ضامن بھی لے کر آئے تھے،قارئین! آپ آزاد رکن کابینہ اور آصف علی زرداری کے ان تعلقات کے حوالے سے پریشان اور متعجب نہ ہوں کہ زرداری صاحب ایک سے زیادہ بار آزاد رکن سینٹ اور وزیر داخلہ کو اپنا بیٹا کہہ چکے ہوئے ہیں،اب صورتحال یہ ہے کہ ایوانوں میں اور ایوانوں کے باہر بھی برسر اقتدار طبقے کو حمایت کی ضرورت ہے اور اِس وقت ایوان کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام(ف) کی اپنی حیثیت ہے اور بعض امور (قوانین کی منظوری) کے حوالے سے تو توازن چل کر ان کے پاس آ گیا ہے۔اب اگر رکاوٹ کوئی باقی ہے تو میرے خیال میں صرف یہ کہ وہ رابطہ کب ہوتا ہے جس کو مولانا بار بار مشتعل کرتے رہے ہیں،میں سمجھتا  ہوں کہ اب ان کی ملاقات بھی ہو جائے گی کہ ضامن بتائیں تو سہی کہ مولانا کی رنجش کیا ہے۔

جہاں تک سیاسی ماحول اور سیاسی حالات کا تعلق ہے تو مولانا کو زیادہ دُکھ خیبرپختونخوا کے حوالے سے ہے کہ وہ خود تو قومی اسمبلی میں موجود ہیں،لیکن اس بار صاحبزادگان ساتھ نہیں ہیں،اگرچہ وہ وقت بھی تھا جب تینوں ہی معتبر اور صاحبزادگان وزیر بھی تھے تاہم وہ خارجی حالات سے بھی مطمئن نہیں ہیں اس لئے مقتدرہ کو انہیں اعتماد میں لینا ہو گا۔مولانا افغانستان کے حوالے سے حکومتی اور دفاعی حکمت عملی سے مطمئن نہیں ہیں۔ طالبان عبوری حکومت کے ساتھ حضرت کے برادرانہ اور مفاہمانہ کے ساتھ ساتھ دینی تعلقات کوئی راز نہیں،وہ نہیں چاہتے کہ عبوری حکومت اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہوں، وہ تو پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی دیس بدری کو بھی پسند نہیں کرتے،لیکن قانونی سقم کی وجہ سے خاموش ہیں۔مولانا جب طالبان حکومت کی دعوت پر افغانستان گئے تو واپسی کے بعد ان کی بات نہیں سنی گئی اور نہ ہی تجاویز لی گئیں۔یہ بھی ایک رنج والی بات ہے۔ بہرحال برسر اقتدار طبقے کو اس پر غور کرنا چاہئے اور مولانا کے ساتھ حکمت عملی کے حوالے سے تفصیلی بات کرنا چاہئے، مولانا بھی دہشت گردی کے خلاف ہیں تاہم وہ حالیہ پالیسی سے مطمئن نہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملے میں بھی ان کے تحفظات دور کئے جائیں ان کا تعاون مفید ہی ہو گا۔آگے آگے دیکھئے کہ پروانہ کس شمع کے حُسن سے جل کر راکھ ہوتا ہے۔

قارئین کرام!میں معذرت خواہ ہوں کہ پیپلزپارٹی کے حوالے سے میرے حالیہ کالم سے بعض ابہام پیدا ہوئے۔ اگرچہ میں نے جو بھی تحریر کیا وہ واقعاتی اور بامعنی بھی ہے، اس کالم کے حوالے سے متعدد جیالوں اور اکثر بزرگوں نے جو پیپلزپارٹی کی قربانیوں کے شاہد ہیں،مجھ سے بات کی۔میرے ایک برخوردار ذہین صحافی نے جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے وارن کمیشن رپورٹ کے ذکر پر اختلاف کیا ہے،میں وضاحت کر دوں کہ میں نے یہ ذکر اس لئے کیا کہ میرے نزدیک محترمہ کی شہادت لیور سے ممکن نہیں اور ان کو سنائپر فائرنگ سے شہید کیا گیا، اگر پورسٹ مارٹم ہو جاتا تو یہ ابہام بھی دور ہو جاتا۔بہرحال محترمہ کی شہادت والی ویڈیو سے یہ نتیجہ اُخذ کرنے میں کوئی دِقت نہیں ہوتی کہ شہادت کا منصوبہ بنانے والوں نے ایک سے زیادہ حکمت عملی بنائیں،خود کش دھماکہ تو ہوا سو ہوا، دو پستول بردار بھی نظر آتے ہیں،کیا یہ ویڈیو بھی پوسٹ مارٹم کا تقاضہ نہیں کرتی۔

امریکہ سے ایک سینئر سٹیزن نے اس مسئلہ پر طویل بات کی اور انہوں نے صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کی بھی بھرپور وکالت کی۔ وہ1977ء کے واقعات کے گواہ ہیں اور کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہوا، کوڑے،قلعہ، جیل، گولیاں اور پھانسیاں ان کا مقدر بنیں، پھر صرف محترمہ ہی نہیں،ان کے والد کو راستے سے ہٹایا گیا۔دونوں بھائیوں کو موت سے ہمکنار کیا گیا،ایسے میں آصف علی زرداری نے خود اور بھٹو فیملی کو بچانے کے لئے مفاہمت کی سیاست کی تو اِس میں حرج ہی کیا ہے،بلکہ ان کی تو تعریف کی جانا چاہئے، میں ان محترم کے خیالات کا احترام کرتا ہوں، تاہم جن بزرگ، جوان سال اور نوجوان کارکنوں نے تنظیمی حالت کے حوالے سے میرے ساتھ اتفاق کیا اور دُکھ ظاہر کیا کہ آخر بہتر تنظیم سازی کیوں نہیں ہوتی،فیڈرل کونسل کا تصور کیوں ختم کیا گیا، محترمہ نے سینئر رہنماؤں اور کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا تھا، اسے ختم کیوں کیا گیا اور آخر کار راجہ پرویز اشرف کی صدارت کیوں قائم ہے،ان کی جگہ کسی متحرک اور جوان سال محنتی رہنماء کو یہ ذمہ داری کیوں نہیں دی جاتی اور صرف ٹی وی کے منتظر حضرات کو ترجیح کیوں دی جا رہی ہے کیوں نہیں، نظریاتی اور مصالحتی گروپوں کو مل کر چلنے کے لئے تنظیمی ڈھانچہ  بنایا جاتا،اب بھی چودھری منور انجم، نوید چودھری اور ایسے کئی رہنماء موجود ہیں جن سے نہ صرف مشاورت ہو سکتی ہے،بلکہ ذمہ داری بھی دی جا سکتی ہے، آخر کار سابق صوبائی صدر قاسم ضیاء میں کیا برائی ہے، کیا ان سب کو دور رکھنے سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ محترمہ کے قریب تر حضرات کو تنظیم سے پرے رکھا جا رہا ہے،ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ صحت مند سینئر کارکنوں کوذمہ داری دینا لازم ہے۔یہ کارکن تو میاں رضا ربانی کے حوالے سے بھی دُکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ محض صاف گو اور ترقی پسند ہونے کی وجہ سے نظرانداز کئے گئے۔

مزید :

رائے -کالم -