اسماعیل ہانیہ
حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ یہ فلسطین کی تحریک ِ آزادی پر دشمنوں کی ایک گہری چوٹ ہے، جس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے افق پر ایک نئی آندھی، ایک نیا طوفان ابھرتا محسوس ہو رہا ہے۔اسرائیل اس جنگ کو طول دینے اور وسعت دینے کی کوششوں میں ہے۔ایران کی جانب سے ردِ عمل اس جنگ کے دائرے کو وسیع کر دے گا اور پورا مشرق وسطیٰ نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ کی زد میں آ جائے گا۔
فلسطین کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہانیہ حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے۔ یوں تو وہ خاصے عرصے سے فلسطین کی تحریکِ آزادای سے کسی نہ کسی حوالے سے منسلک تھے، لیکن 2017ء میں انہیں خالد مشعل کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 2023ء سے قطر میں قیام پذیر تھے اور وہیں سے حماس کے پولیٹیکل معاملات کی نگرانی کر رہے تھے۔ اسماعیل ہانیہ 1988ء میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے اس تحریک میں شامل تھے۔1997ء میں وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکرٹری بن گئے،یوں انہیں فلسطین کی اسرائیل سے مکمل آزادی کے لئے چلائی جانے والی تحریکوں کا عملی تجربہ تھا۔ 1988ء میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہانیہ کو اسرائیل نے 6 ماہ قید میں رکھا تھا۔ 1989 ء میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992ء میں اسماعیل ہانیہ کو لبنان ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا‘ جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد اسماعیل ہانیہ کی غزہ واپسی ہوئی تھی، لیکن حماس تو اوسلو معاہدے کو تسلیم ہی نہیں کرتی تھی، وہ مکمل فلسطین کو آزاد کرانے کی حامی تنظیم ہے۔ 2006ء میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہانیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا، حماس اور الفتح تنظیموں کے مابین اختلافات کی وجہ سے یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی، لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی، اور اسماعیل ہانیہ ہی اس کے سربراہ ہیں۔اسی وجہ سے غزہ کا علاقہ ہی سب سے زیادہ اسرائیلی حملوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ اسرائیل حماس کو اس قابل نہیں رہنے دینا چاہ رہا کہ وہ دوبارہ اسرائیل کا راستہ روکنے کی جرأت کر سکے۔
اسماعیل ہانیہ کے قتل (شہادت) نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں جن کے جواب ملنے تک معاملات کی گتھی سلجھانا اور فلسطینی مسئلے کا حل تلاش کرنا اب مزید مشکل ہو گیا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ اسماعیل ہانیہ قطر میں رہ رہے تھے، انہیں قطر کے بجائے ایران میں کیوں نشانہ بنایا گیا؟دوسرا سوال،کہا جاتا ہے انہیں گائیڈڈ میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تو یہ میزائل کہاں سے آیا اور اسے راستے ہی میں Intersept کیوں نہیں کیا جا سکا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حملہ اسرائیل ہی نے کیا ہے (جس کا زیادہ اندیشہ بھی ہے) تو اسرائیل کو یہ کس نے Pin Point کیا ہو گا کہ اسماعیل ہانیہ کس جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں کہ صرف اسی مکان کو نشانہ بنایا گیا؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے یہ حملہ ایران کی سرزمین پر کیا ہے تو کیا ایران کی جانب سے اس پر کوئی عملی ردِ عمل ظاہر کیا جائے گا؟ فی الحال تو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر کہا ہے کہ ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے، اسرائیل نے اپنے لئے سخت سزا کی بنیاد فراہم کی ہے اور ایران اپنے ملک کے اندر ہونے والے اسماعیل ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران دہشت گرد قابضین کو اس شہادت کے بزدلانہ عمل پر پچھتانے پر مجبور کر دے گا۔ حماس رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ اسماعیل ہانیہ کا قتل ایک بزدلانہ فعل ہے،جس کی سزا دی جائے گی، ہانیہ کے قتل سے اسرائیل کو اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ حماس ہی کے رہنما سامی ابو زہری نے کہا کہ ہم بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لئے کھلی جنگ لڑ رہے ہیں، بیت المقدس کے لئے ہر قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد حماس اسرائیل جنگ میں شدت پیدا ہو جائے گی؟
ان سوالات کے جوابات میں ہی مضمر ہے کہ مشرق وسطیٰ کا مستقبل قریب کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ کیا آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک ہانیہ خاندان کے 60 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اپریل 2024ء میں اسماعیل ہانیہ کے 3 بیٹے، حازم، عامر اور محمد اسرائیلی بمباری سے شہید ہوئے تھے، جبکہ اسی حملے میں اسماعیل ہانیہ کی 3 پوتیاں اور ایک پوتا بھی شہید ہو گئے تھے۔ صبر و استقامت کے پیکر اسماعیل ہانیہ نے بیٹوں اور پوتوں کی شہادتوں پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہادتوں سے ہمیں آزادی کی امید ملتی ہے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے بچے شہید اور گھر تباہ ہو جائیں۔ تو اس مقصد کے لئے چھپ کر رات کی تاریکی میں بزدلوں کی طرح وار کیا گیا۔
فلسطین کی تحریک ِ آزادی لا تعداد کٹھنائیوں مشکلات مسائل اور دشواریوں کا شکار رہی ہے اب شاید اس سے زیادہ مشکلات میں گھر جائے، لیکن یہ طے ہے کہ حماس کا ارادہ پیچھے ہٹنے کا نہیں۔ فلسطین کی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے یوں تو کئی تنظیمیں کام کر رہی تھیں، لیکن دو سب سے زیادہ معروف ہیں حماس اور الفتح۔ حماس اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے خلاف ہے اور اسرائیل کے خلاف مسلسل مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔دوسرے لفظوں میں حماس طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے برعکس الفتح تنظیم یا تحریک یہ چاہتی ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کو بات چیت سیاست کاری اور سفارت کاری کے ذریعے طے کیا جائے، اس لئے اس کی جدوجہد پُرامن اور غیر مسلح ہے اور یہی چیز دونوں تنظیموں کے مابین اختلافات کی بڑی وجہ ہے۔چنانچہ میرے خیال میں اسرائیلی جارحیت روکنے کا ایک موثر طریقہ فلسطین کی مسلح اور غیر مسلح تحریکوں کو متحد اور منظم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کوئی منظر اسی وقت عالمی افق پر اُبھرے گا جب مسلم ممالک کی جانب سے اس کے لئے جامع کوششیں کی جائیں گی۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد اب آگے امتحانات کے نئے مرحلے نظر آتے ہیں۔اللہ ہی خیر کرے۔