فیصلوں کی توقیر کا ڈھنڈورا
یہ درست ہے کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے برعکس قانون سازی کا راستہ اپنا کر عوام اور دنیا کو پیغام دے کہ وہ حکم عدولی کی روش پر ہے، لیکن کیا کِیا جائے کہ نون لیگ کی سابقہ حکومت نے 2013ء سے 2018ء کے دوران حکم مان کر بھی دیکھ لیا تھا، لیکن تب کم از کم تین چیف جسٹس صاحبان نے جس طرح ایک منتخب حکومت کو زچ کرکے ناکام کرنے کا مشن اپنائے رکھا اس کے بعد نون لیگ کی موجودہ حکومت سے حکم بجالانے کا تقاضا کرنا بنتا نہیں ہے۔
آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے تحریک انصاف کے دعوے کھوکھلے تھے۔ جہانگیر ترین سے لے کر کئی ایک اعتراف کرچکے ہیں کہ پنجاب میں 50فیصد نشستیں جو پی ٹی آئی ہاری،ان میں پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری پوزیشن پر بھی نہیں تھے،بلکہ تیسرے چوتھے اور پانچویں نمبروں پر تھے،جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری جگہ پر تھے وہ بھی 20فیصد سے کم حلقے تھے، یعنی پی ٹی آئی کے 2013ء کے انتخابات جیتنے کے کوئی شماریاتی امکانات نہیں تھے۔
مگر افسوس کہ تب کی سپریم کورٹ ایک قانونی، جائز اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے مینڈیٹ کو جان بوجھ کر اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت متنازع بنانے میں حصہ دار بنی رہی، جس سے نہ صرف پاکستان میں جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا، بلکہ معاشی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ 21اگست 2014ء کے اخبارات گواہ ہیں کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو شاہراہ دستور خالی کرنے کا حکم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تب کے چیف جسٹس ناصرالملک کا کہتا تھا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اور حکومت اس کو انتظامی طور پر حل کرے، عدالت سیاسی معاملات میں نہیں پڑے گی،حالانکہ دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ انصاف کی باتیں کرنے والے انصاف کے حصول میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، کیونکہ سڑک بلاک ہونے کی وجہ سے سائلین اور وکلاء سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے،جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی اپنے گھر وں سے وہاں تک پہنچنے میں رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ تب کے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ عدالت سے عرض گزارتے رہے کہ ریڈ زون اور شاہراہ دستور پر حساس اور ریاستی عمارتیں ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے وزیراعظم اور پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے کی باتیں کی ہیں، جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا غلط تاثر جارہا ہے، لیکن تب سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور دیگر سرکاری عمارتوں کی کس طرح بے حرمتی کی گئی،حالانکہ پارلیمنٹ ملک کی واحد معزز عمارت ہے،جہاں رات کے وقت بھی جھنڈا سرنگوں نہیں ہوتا اور اسے بطور خاص روشن رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پانامہ سکینڈل پر تو جے آئی ٹی تشکیل دے دی، لیکن ان سمیت بعد کے چیف جسٹسوں میں سے کسی کو خیال نہ آیا کہ 2014ء کے دھرنے پر بھی ایک جے آئی ٹی بننی چاہئے،جو ریاست میں بغاوت کرنے والوں کے کردار کا تعین کرے۔اُلٹا سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پہلے آئین میں ایک طرح سے تحریف کی اور بعد میں دوسری طرح سے تحریف کرکے نون لیگ کو دیوار سے لگا رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آج ملک کی سیاسی و معاشی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ سابق چیف جسٹس صاحبان صریحاً ناانصافیاں کرکے بھی آج دس دس لاکھ کی پنشنیں اور سرکاری رہائشیں انجوائے کر رہے ہیں اور عوام بجلی کے بلوں سے تنگ ایک دوسرے کو چاقو چھریاں مارتے ندی نالوں میں کود کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔
یادش بخیر تب مشہور ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی نے نواز شریف سے پوچھا تھا کہ ووٹ کو عزت کیسے مل سکتی ہے تو اس پر نواز شریف نے کہا تھا ایسا تبھی ممکن ہے جب میڈیا بھی اس نعرے کی پہرے داری کرے، لیکن پہرے داری کیا خاص ہونا تھی، الٹا کاشف عباسی کے پروگرام میں فوجی بوٹ کیمرے کے سامنے ٹیبل پر سجا کر پروگرام ہو رہے تھے۔ میڈیا کی جانب سے ایسی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا حصہ بننے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کو روتے بھی ہیں، مگر ارشد شریف کی غلط روش کو بھی اپنائے ہوئے ہیں کہ ملک کا سوچنے کی بجائے ہم ذاتی پسندوناپسند کی بنا پر پروگرام ترتیب دیتے اور ہیرو کوزیرو اور زیرو کوہیرو بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کس طرح مشرق وسطیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی گئی ہے اور ایران میں ایک کھڑکی کو چیرتا ہوا میزائل اسماعیل ہنیہ کی جان لے گیا ہے اور ایران سمیت سارے مسلمان ممالک بت بنے اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم نے ملک کی سیاسی و معاشی بنیادوں کو کھو کھلا کرنے کی روش ترک نہ کی اور غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہ کہا تو یاد رکھنا چاہئے ایران اور پاکستان کے درمیان صرف ایک بارڈ ر کی لکیر ہے،جوا فتاد وہاں برپا ہے،یہاں کا رخ بھی کر سکتی ہے!
لہٰذا سپریم کورٹ کے فیصلوں کی توقیر کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو گزشتہ دس برسوں کی سپریم کورٹ کا جائزہ بھی لینا چاہئے اور صائب اور بے لاگ تبصرہ نگاری کرنی چاہئے، کیونکہ اگر ملک کا دانشور طبقہ میل زدہ ہوگیا تو قوم کی ذہنی پستی کا جنازہ کل نہیں آج ہی نکل جائے گا! جب گھرکے بڑے حواس باختگی کا شکار ہو جائیں تو بچے سوجھ بوجھ کھو بیٹھتے ہیں!