اک نظر غریب پر بھی ۔۔۔!
پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کو جو مقصود و مطلوب تھا اس میں بیشتر منزلیں وہ پا چکے ہیں. ایک تقرری کے لیے گزشتہ ایک سال سے پورے ملک میں جو ہیجان برپا تھا خدا کرے کہ اب اس میں کمی واقع ہوجائے. سیاست، صحافت، حکومت،اپوزیشن،تجارت غرض ہر شعبہ زندگی کو صرف ایک ہی فکر لاحق تھی کہ آرمی چیف کون بنے گا؟ یوں لگ رہا تھا کہ ہمارے ملک میں اس کے علاوہ کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں سب حل ہوچکے.
وزیر اعظم کی طرف سے سنیارٹی لسٹ میں سب سے سینئر جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف اور دوسرے نمبر پر موجود جنرل ساحر شمشاد کو چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر کردیا گیا. ہر سیاسی جماعت یہ منوانے کے لیے سوشل میڈیا پر جنگ لڑنے میں مصروف تھی کہ یہ تقرری ہمارے لیڈر کی مرضی سے ہونی ہے. مسلم لیگ( ن) نے ماضی میں ہمیشہ سنیارٹی لسٹ میں تیسرے چوتھے نمبر پر آنے والے جنرلوں کو ہی آرمی چیف لگایا ہے لیکن اس دفعہ سنیارٹی لسٹ میں پہلے2سینئر افراد کو مقرر کردیا گیا ہے. یہ ایک اچھی روایت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، اللہ کرے کہ یہ تقرری بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح بالکل چپکے سے ہوجایا کرے تاکہ پورے ملک کا نظام رک کر صرف اسی کے گرد گھومنے سے باز رہے.
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ بھارت کی فوج بہت زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کرتی ہے لیکن پھر بھی انہیں اتنی تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جبکہ ہماری فوج ہر وقت اپنی قوم کی خدمت کرنے کا فریضہ ادا کرتی رہتی ہے لیکن پھر بھی تنقید کے نشتر سہنے پڑتے ہیں. اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ گزشتہ 75 برسوں میں کسی نا کسی طرح فوج ملکی سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے جو کہ غیر آئینی ہے. انہوں نے تسلیم کیا کہ ہم نے بطور ادارہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کی فوج ملکی سیاست میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کرے گی. 2018 میں آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھنے کا بہانہ بنا کر اور 2022 میں عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کا بہانہ بنا کر فوج پر تنقید کی گئی.
انہوں نے یہ رویہ ترک کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اس کو برداشت کرنا ہوگا.سٹیک ہولڈرز کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا مشورہ دیا.انہوں نے بیرونی سازش بنانے والے بیانیے کی بھی مذمت کی اور یقین دہانی کروائی کہ فوج کے ہوتے ہوئے یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ کوئی بیرونی سازش ہو۔
سابق آرمی چیف کی یہ گفتگو انتہائی تاریخی گفتگو ہے لیکن اب بال سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے کہ یہ ہر ادارے کو اس کے آئینی دائرہ کار تک محدود رہنے دینا چاہتے ہیں یا نہیں. عمران خان صاحب نے پہلے بیانیہ بنایا کہ بیرونی سازش ہوئی اور اس میں سیاست دانوں سمیت طاقتور حلقے سب شامل ہیں. بعد میں فرمانے لگے کہ امریکی سازش والے بیانیہ سے پیچھے ہٹنے کا اب وقت آگیا ہے. جب امریکہ سے تعلقات بگڑے تو موصوف نے ان سے تعلقات کی بحالی کے لیے وہاں ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کر لیں. طاقتور حلقوں کے بارے میں بھی بعد میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ چلیں آپ نے سازش نہیں کی مگر اس کو روک تو سکتے تھے ناں. گویا غصہ گرتے کو بیساکھی فراہم نہ کرنے پر ہے.
نئے آرمی چیف کو پی ٹی آئی نے مبارک باد کا جو خط لکھا ہے اس میں بھی ان سے جلد الیکشن کروانے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے. سوال یہ ہے کہ یہ مطالبہ کس آئین کے تحت کیا جارہا ہے؟ یہ سرعام ادارے کو غیر آئینی کام کرنے کے لیے اکسایا جارہا ہے. سیاست دان اپنی کارکردگی اور ایمانداری کی بنیاد پر سیاست کرنے کی بجائے اداروں کی مدد سے ہی کیوں سیاست کرنا چاہتے ہیں؟ یہ اتنے کمزور کیوں ہوچکے ہیں کہ انہیں ہر وقت بیساکھیوں کی تلاش رہتی ہے؟ ادارے سیاست میں مداخلت کریں تو جیسے تنقید کی جاتی ہے ویسے ہی اداروں سے سیاسی مدد مانگنے والوں پر کیوں نہیں کی جاتی؟
مسلم لیگ( ن) نے گویا کہ اپنی سیاست کا خاتمہ ہی اس ایک تقرری اور چند کیسز سے ریلیف حاصل کرنے کے لیے کیاتھا. سب جانتے ہیں کی مسلم لیگ (ن )عوامی حلقوں میں اقتدار لینے کے بعد بہت کمزور ہوچکی ہے اور عوامی حلقوں میں بالکل ختم ہوئے عمران خان کو لات مار کر دوبارہ یہ خود زندہ کرچکے ہیں.غریب عوام کے کے دکھ درد کا بہانہ بنا کر اقتدار حاصل کیا گیا تھا.
ملک سے کاروبار کے بند ہونے اور مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہونے نے انہیں مجبور کردیا تھا کہ بس اب کسی صورت بھی اقتدار حاصل کرلے اور غریب طبقے کو ریلیف دیا جائے. سوال یہ ہے کہ غریب کے نام پر لی گئی حکومت نے غریب پر اتنی زندگی کیوں تنگ کردی ہے کہ یا تو وہ قرض کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے یا پھر وہ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہے. مسلم لیگ( ن) نے پورا زور لگا کر جو کامیابیاں سمیٹی ہیں یہ تو ان کے نعروں میں شامل ہی نہیں تھیں. ان کے نعروں میں بس غریب تھا، غربت تھی اور مہنگائی تھی جس کے خاتمے کی بجائے انہوں سے پورے اہتمام سے اضافہ کیا ہے. مسلم لیگ (ن )ہمیشہ کاروباری حلقوں میں مقبول رہی ہے لیکن اس دفعہ کاروبار بالکل منجمند ہونے کی وجہ سے کاروباری حلقے بھی( ن) لیگ سے شدید نالاں نظر آرہے ہیں ۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا کا متفق ہونا ضروری نہیں