حماس کے " ہمدرد" یا صوفی تبسم کے لافانی کردار

              حماس کے " ہمدرد" یا صوفی تبسم کے لافانی کردار
              حماس کے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک 11 سالہ لڑکا اپنے 8 سالہ بھائی کے ساتھ کھیلتے ہوئے کنویں میں گر گیا،چھوٹے نے لپک کر درخت تلے پڑا ڈول کنویں میں پھینکا اور اسے ڈول میں بیٹھنے کو کہا۔ پھر وہ رسہ کھینچنے لگا۔ اس ننھے سے وجود کے ہاتھوں سے رسہ ہر دفعہ چھوٹ جاتا، عصر سے مغرب ہوگئی، سورج غروب ہو گیا، لیکن اس باہمت بچے نے بھائی کو نکال ہی لیا۔ مٹی کیچڑ میں لت پت دونوں گاؤں پہنچے تو پوری بستی ان کی تلاش میں تھی۔ جب سنا کہ 8 سالہ بچے نے 11 سالہ بھائی کو کنویں سے اکیلے نکالا تو بیشتر کو یقین نہ آیا۔ کچھ ان کی حالت دیکھ کر مان گئے۔ لیکن" گروپ بولا "سوال تو یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے"۔ یہ گروپ ہر بستی، ہر محلے میں پایا جاتا ہے۔ کچھ بولے، "بڑا باہمت بچہ ہے جی, اسی نے نکالا ہوگا". جب یہ مفید بحث ختم نہ ہوئی تو طے پایا کہ چلو سیانے سے پوچھتے ہیں۔

چچا فضل دین نے ماجرا سن کر مجلس پر اچٹتی سی نگاہ دوڑائی اور منکرین سے بولے: "تم ٹھیک کہتے ہو،8 سالہ بچہ11سالہ بچے کو اکیلے نہیں نکال سکتا۔ " فاتح گروپ اکڑ کر واپس ہونے لگا تو چچا گرج کر بولے: "ٹھہرو"۔ لوگ سہم گئے۔ پھر چچا لفظ لفظ تول کر بولے: "لیکن بڑے کو اس ننھے بچے ہی نے نکالا۔ وہ یوں کہ جب  ننھا بچہ یہ ناممکن کام کر رہا تھا تو اس کے  پاس تم میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو کہتا کہ ارے او چھوٹے، تم یہ کام نہیں کر سکتے۔ سن لیا؟ چلو اب دفع ہو جاؤ"۔

بستی محلے سے لے کر محراب و منبر، صحافت و سیاست اور عدالت و تجارت تک ہر جگہ ہمیں "سوال تو یہ ہے" والے اسی گروپ کے کردار ملتے ہیں جن کا کام بلا جواز بولنا اور بے سوچے بولنا ہوتا ہے۔ بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام شروع ہوا نہیں کہ مینڈک بھی ٹراتے آئے، چوہے شور مچاتے آئے: " جی نکمے لوگوں کو اور نکھٹو نہ بناؤ، کارخانے لگا کر انہیں کام دو"گویا کھانے کو ترستی بیواؤں، یتیموں کے لیے اسی وقت کارخانہ لگاؤ اور انہیں فوراً اجرت دو۔ سستی روٹی اسکیم کا نام لینے کی دیر تھی کہ دھوبی کنجڑا نائی آیا، پنساری حلوائی آیا، سب نے مل کر شور مچایا اور سکیم بند۔میں نے ناداروں کو دعائیں دیتے سنا تھا کہ اللہ، ہمارا حاکم سلامت رہے جس نے پیٹ بھر کھانا کھلایا۔

 "بنو قابل پروگرام" کے تحت نوجوانوں کو کمپیوٹر سکھانے کا کام شروع ہوا نہیں کہ کوے آئے کیں کیں کرتے، طوتے آئے ٹیں ٹیں کرتے کرتے، بلبل چونچ ہلاتی آئی۔ "دیکھ لو جی، خود جماعت اسلامی کافر مغربی معیشت کو فروغ دے رہی ہے"۔ پنجاب بینک کا نام سنا نہیں کہ سیاست دان، صحافی، وکیل غل مچانے لگ گئے۔ "وفاق توڑا جا رہا ہے، آئین سے غداری ہے"۔جب بینک بن گیا تو ساری خلقت دوڑی آئی، میرے اللہ تیری دہائی۔ اب ایک محب وطن صوبہ باقی ہے جس کا بینک نہیں ہے۔ رہی موٹر وے تو سنتے ہی تلواریں سونت لی گئی تھیی۔ جونہی دسترخوان لگایا، گاؤں کا گاؤں دوڑا آیا کہ "اگلی نئی موٹر وے ہمارے گاؤں، ہمارے محلے سے گزاری جائے"۔ (تحریک انصاف سے  معذرت کہ 'پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے'، میں اگلے ہفتے تصویب (corrigendum) جاری کر دوں گا)۔

بولنے کے لاعلاج مرض میں مبتلا ان لوگوں کے قلم سے نکلتی آگ کی لپٹیں اب حماس کو لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ 75 سال سے میتیں گننے والوں کی مالی مدد تو یہ لوگ کیا کریں گے، حماس کے زخموں پر پھاہا کیوں رکھیں گے کہ حماس کے 'مندمل ہونے ہی لگتے ہیں سبھی گھاؤ کہ پھر' تو ان معززین کے لیے  'دفعتاًنرخ نمک شہر میں گر جاتے ہیں '، کوئی حماس کو قاہرانہ امریکی قوت اور مہلک ہتھیاروں سے ڈراتا ہے۔ بعض تھڑ دلے حماس کے مخلص مشیر ہیں: "پہلے تعلیم حاصل کرو، بم بناؤ، طاقت پکڑو، پھر اسرائیل سے لڑنا کہ اس کا مقابلہ ممکن نہیں "۔ خوب رہی بھئی واہ۔ زندگی بھر حالت جنگ میں اور بے گھر ہو کر بھی اہل فلسطین میں خواندگی کا تناسب 99 فیصد ہے۔ یہ خواندگی مسلمانوں کے ملا والی نہیں،سر سید کو مطلوب انگریزی والی ہے۔ کسی بھی مجاہد یا شہید کا نام لو، اسے تم ڈاکٹر، انجینئر یا علوم انتطامیہ کا ماہر پاؤ گے۔ حماس کی ناکام سفارت کا کہنے والے بھی کم نہیں: "جی، سفارت سے ہر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ حماس اسرائیل پر یونہی چڑھ دوڑی اور غزہ کو کھنڈر بنوا ڈالا"۔

یہ بات نہیں ہے کہ یہ لوگ کم علم یا جاہل ہیں، نہیں, مسئلہ وہی بولنا اور بلا تکان بولنا ہے۔ مذاکرات کا ڈھول پیٹنے والے صدی بھر کا کوئی ایک قضیہ بتائیں جو مذاکرات سے حل ہوا ہو۔ ویت نام پر فرانس قابض ہوا تو مار کھا کر نکلا۔ پھر امریکہ داخل ہوا تو کیا وہ مذاکرات سے نکلا تھا؟ افغانستان پر سوویت یونین نے حملہ کیا تو کیا وہ مذاکرات کے ذریعے سے ٹوٹا تھا؟ اور وہ آٹھ نو سوویت مقبوضہ مسلم ریاستیں کیا مذاکرات سے آزاد ہوئی ہیں یا ان کی آزادی پاک افغان مسلح جدوجہد اور ان گنت قربانیوں کا ثمرہ ہے؟پھر امریکہ افغانستان پر قابض ہوا تو 20 سال بعد اس افرا تفری میں فرار ہوا کہ لوگ جہازوں کے پہیوں سے لٹک گئے تھے۔ صومالیہ کے جنرل فرح عدید نے 22 فوجیوں کو جیپوں سے باندھ کر گھسیٹا تو امریکہ نے دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا۔

 لیکن ٹھہریے! ان بد دیانت اہل علم کو بتا دیجئے کہ مسائل مذاکرات سے بھی حل ہوئے ہیں، ان کے خیال میں مذہب اب چند مسلمانوں کا مسئلہ ہے، ورنہ دنیا سات پانیوں میں دھل چکی ہے اور یہ کہ عالمی امور میں مذہب راندہ درگاہ ہے لہذا کشمیر اور فلسطینی مذہبی ریاستوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ اچھا جی؟ تو 1975ء میں مشرقی تیمور کے مسیحیوں کو "سیکولر" قوتوں نے بذریعہ مذاکرات مذہب کے نام پر کیوں "آزاد" کروایا تھا۔ اور وہ مسیحی جنوبی سوڈان عالمی طاقتوں نے کیا سیکولرزم کے نام پر آزاد کرایا تھا؟ سنو! جنگوں میں لوگ مرتے آئے ہیں، مرتے رہیں گے یہی اٹل قابیلی روایت ہے۔ اچھا تو تم جنگ میں مرنے سے خوفزدہ ہو، تم نے آب حیات پی رکھا ہے؟چلو جو مرضی کرو لیکن ہمارے شہداء کی گنتی تو نہ کرو۔

لیکن ذرا ٹھہرو، سنو؟ میں پچھلے ہفتے الخدمت کے عطیہ دہندگان (donors) کی دو تقریبات میں مدعو تھا۔ ایک ننھی سی بستی نے گھنٹے میں دو کروڑ سے زائد رقم نچھاور کی۔ دوسری نے بھی تقریبا اتنی ہی، لیکن وہاں مجھے کوئی دھوبی، کنجڑا، نائی نہیں ملا۔ عورتیں اپنے زیور تک دے رہی تھیں۔ کوے کی کیں کیں سنی، نہ طوطے کی ٹیں ٹیں۔ بچے اپنا جیب خرچ دینے کو کوشاں تھے، پنساری دیکھا نہ حلوائی ملا۔ پیٹ کاٹ کر دینے والے بھی ملے۔ مینڈک کی ٹر ٹر سنی نہ چوہے کا شور۔ کسی ایک نے حماس یا اہل فلسطین کا احتساب نہیں کیا۔ اور تم؟ بن مانگے مشورے، بلا جواز تبصرے اور اسرائیلی و امریکی ڈراوے، تم یہی کچھ دیتے ہو نا؟ 8 سالہ ننھے حماس کی "فکر" مت کرو, اپنے 11 سالہ فلسطینی بھائیوں کو بالآخر وہ کنویں سے نکال لے گا۔ ورنہ شہید ہو جائے گا تمہیں کیا؟ لیکن اس قضیے میں تو کون؟ جی میں خواہ خواہ! بس اب خاموش ہو جاؤ، ہمیں کام کرنے دو۔

مزید :

رائے -کالم -