مائیں کیوں مرجاتی ہیں 

  مائیں کیوں مرجاتی ہیں 
  مائیں کیوں مرجاتی ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دو ہزار پانچ کے بعد جنوری کبھی اچھا نہیں لگا کہ اس مہینے ابو ہمیں چھوڑ گئے تھے۔ لیکن گذشتہ برس یہ آیا اور میری ماں کو بھی لے گیا۔ میری ماں جو میری کل دنیا تھی۔ ماں کو بچھڑے ایک سال بیت گیا ہے لیکن قرار ایک پل کو نہیں آیا، ہر گذرتا دن مزید تکلیف دہ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے جدائی کے دن بڑھ رہے ویسے ویسے آنسوؤں کی روانی بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے نہیں پتہ صبر کیسے آئے گا۔ ابو کے جانے کے بعد ماں نے ہمیں سنبھال لیا تھا، پھر بھی  ابو کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا تھا۔ جب بھی ہمیں کوئی مسئلہ ہوتا دل کرتا ابو کہیں سے آجائیں اور معاملات ٹھیک کر دیں۔ لیکن وہ تو ایسی جگہ تھے جہاں  واپسی کا راستہ بند ہوتا ہے۔ اب اسی جگہ ماں بھی چلی گئیں۔ ماں میں آپ کو پکار پکار کر تھک گئی ہوں لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملتا۔  آپ کو پتہ تھا اور یہ صرف آپ ہی کو پتہ تھا کہ میرا آپ کے سوا کوئی نہیں تو پھر کیوں چھوڑ کے چلی گئیں، کیوں؟ میں سوئی ہوئی ہوں یاجاگ رہی صرف آپ کو  پکارتی ہوں۔ کبھی درد یا تکلیف ہو تو بے ساختہ آپ کو آوازیں دیتی ہوں۔ میں تڑپتی رہتی ہوں آپ سے ملنے کو۔ عثمان قبرستان بھی نہیں لے کے جاتا۔کہتا قبرستان دعا کے لئے جاتے ہیں اور تم وہاں روتی ہو۔ قبرستان جا کر میں ہوش میں نہیں رہتی وہ کہتا رہتا دعا کرو لیکن میں صرف آپ کو پکارتی ہوں۔ میرا بس چلے تو آپ کو باہر نکال لوں یا خود آپ کے ساتھ لیٹ جاؤں۔ لیکن اتنی بے بس ہوں کہ دونوں میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔

 میری آنکھ سے کبھی آنسو نکلتے تھے تو آپ کہتیں تھیں میرے سامنے مت رویا کرو۔ اب میں آپ کے پاس بیٹھ کر شدت سے روتی ہوں، دھاڑیں مارتی ہوں لیکن آپ کچھ بولتی ہی نہیں، مجھے چپ نہیں کرواتیں۔ 

میرا آپ سے اختلاف ہوتا جو کہ اکثر ہی ہوجاتا تھا تو آپ کہتیں یہ تو پتہ نہیں کس پہ گئی ہے، اور میری ہنسی نکل جاتی تھی۔ جب بھی مجھے کوئی بات منوانی ہوتی تو کہتی امی آپ کو نہیں پتہ، آپ پہ دھونس بھی جمالیتی تھی۔ ایسی دھونس جو صرف ماں سہتی ہے۔ ماں میں آپکا بگڑا ہوا بچہ تھی۔ میرے سوا ایسا کرنے کی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن میں تو سب کر گذرتی تھی۔ آپ کی زندگی کے آخری دن یہی کہا تھا نا آپ سے، ماں میرا سب کچھ آپ کی وجہ سے ہے۔ ساری اکڑ سارا غرور آپ کے دم سے ہے۔ یہاں تک کہ میرا بولنا بھی، آپ کے بغیر کچھ نہیں ہوں میں۔   پھر بھی آپ مجھے تنہا چھوڑ گئیں۔ آپ کہتی رہیں مشکل سہی  پر میری بات مان لو ، لیکن میری ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ماں آپ کے ہوتے مجھے کوئی فکر نہیں تھی۔ لیکن ماں اب میں ترستی ہوں کہ آپ کہیں میری بات مان لو اور میں مان جاؤں، بس  ایک بار آکر کہہ دیں مجھے۔ زندگی بہت مشکل ہے ماں، ساری بے فکری، ساری آسانیاں  آپ کے دم سے تھیں۔ اب سسرال واپس آتے ہوئے مجھے کوئی پیچھے سے آواز دے کر یہ نہیں کہتا، جارہی ہو تو پیار لیکر جاؤ۔ کوئی ایک ایک دن گن کر نہیں گذارتا، کوئی یہ نہیں کہتا تمہیں گئے ایک مہینہ بیس دن ہو گئے ہیں، اب آ بھی جاؤ۔  عثمان کو  آپ کی بات یاد ہے کہ بیٹیوں کو کبھی خالی نہیں بھیجتے۔ وہ مجھے ہمیشہ بہت کچھ دے کر بھیجتا ہے لیکن آپ والا پیار کوئی نہیں دے سکتا۔ ماں آپ کو نہیں جانا چاہیئے تھا۔آپ کے بعد میں کیا  ہم سب ہی تنہا ہوگئے ہیں۔ ہمیں لگتا ہم سب چھوٹے چار پانچ سال کے بچے ہیں جن کے لئے ماں کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں ہم سب بہن بھائی جو اپنے اپنے گھر بار والے ہیں،  ہمارا یہ حال ہے تو جن بچوں کی مائیں بچپن میں ہی انھیں چھوڑ جاتی ہیں جانے وہ کیسے رہتے ہوں گے۔ کہ جینا تو صرف ماں باپ کے ساتھ ہے۔ کبھی سوچتی تھی جن بچوں کی مائیں مر جاتی ہیں وہ کیسے جیتے ہیں۔ اب سمجھ آئی ہے وہ جیتے ہی کب ہیں۔ ماں! مائیں کیوں مر جاتی ہیں؟

مزید :

رائے -کالم -