محنت دیانتداری سے معاشی بہتری جلد ممکن
ملکی معیشت کی بہتری کے لئے بڑی وجوہ اور عوامل کی نشاندہی کر کے کوتاہیوں اور خرابیوں کو درست اور زیادہ کار آمد بنا کر کسی حد تک مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً زراعت کے بڑے شعبہ پر توجہ مرکوز کر کے اگر کسانوں کی ضروریات کے حصول کو سہل بنایا جا سکے تو اس بارے میں وفاقی اور صوبائی وزراء کو خوراک کی اجناس گندم،چاول، دالیں، سبزیاں، پھل، کپتان، گنا، گوشت، دودھ وغیرہ کی ہر سال زیادہ اور بہتر معیار کی پیدوار حاصل کرنے کے لئے خصوصی محنت اور جدید تحقیق پر مبنی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، حتیٰ الوسع کارکردگی کو ترجیح دینے میں کسی پس و پیش اور تذبذب کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ مہنگی بجلی اگر رکاوٹ کا باعث بنتی ہے تو متعلقہ وزارت بھی ان کی اس شکایت پر غور کر کے مشکل کو قدرے سہل بنا سکتی ہے لیکن کسان بھائیوں کو بھی ملکی معیشت کے تازہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مطالبات کو محدود رکھنے کی سعی کرنا ہو گی۔ بھارت اور بعض دیگر ممالک میں کسانوں کو اگر بجلی مفت یا نسبتاً کافی سستی دستیاب ہوتی ہے تو اس انداز کی سہولت وطن عزیز میں کیسے مل سکتی ہے کیونکہ یہاں کے اپنے مخصوص نوعیت کے مختلف حالات ہیں۔ کھاد کی سستے نرخوں پر فراہمی بھی ہمارے کسانوں کا مطالبہ ہے،جو آئے روز سننے میں آتا ہے لیکن مارکیٹ میں کھاد بلیک ریٹ پر ہی فروخت ہونے کی اطلاعات ظاہر ہوتی ہیں۔ ہمارے ان ڈیلر حضرات کو اس غیر قانونی روش سے اجتناب کر کے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر کسان خریداروں کو وہ کھاد فراہم کرنی چاہئے کیونکہ بلیک میں فروخت کرنا قانونی طور پر جرم ہے تو ظاہر ہے کہ اس غلط کاری پر ان کے خلاف متعلقہ سرکاری افسر گاہے بگاہے اپنے علاقوں کے دورے کر کے ذخیرہ اندوزی کرنے والے لوگوں کے ناجائز دھندے پر چھاپے مار کر مذکورہ بالا گوداموں سے مہنگائی کرنے کا موجب بننے والے مال کو اپنے قبضہ میں لے کر ان علاقوں کے کسانوں کو سرکاری ریٹ پر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان ڈیلروں کو مالی طور پر نقصان سے دو چار ہونے کے علاوہ ان کی اپنے علاقوں میں بدنامی سے عزت و شہرت کے ساتھ کاروباری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔اس انداز پر لوگوں کا ناجائز کارکردگی کی بنا پر ان پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے اور ان افراد کو بطور ایک ذمہ دار شہری اور معاشرے کا معتبر انسان تسلیم کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ان حضرات کو اس امر کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ اپنے مثبت اور قانونی طور پر درست کردار سے ہی انسان کی عزت اور عظمت میں اضافہ ہوتا ہے اور بعض اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے ان پر اعتماد و بھروسہ کر کے قائدانہ حیثیت کے امور ان کو سونپ دینے کے لئے بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہتر کارکردگی سے ان کا معاشرے میں احترام و مقام بڑھ سکتا ہے کیونکہ ہر علاقے میں انسانی اوصاف کی برتری کے حامل افراد کو ہی قائدانہ امور کی ادائیگی کے لئے مقرر اور منتخب کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قائدانہ خوبیوں کی انجام دہی کے لئے متعلقہ افراد کا مکار اور عیار ہونا شاید ضروری اہلیت ہوتی ہے جبکہ یہ تصور اور معیار، بالکل غلط اور منفی سوچ و فکر پر مبنی ہے کیونکہ کسی شعبے کی ذمہ دارانہ کارکردگی کے لئے ترجیحی اہلیت،دیانتداری، صداقت اور محنت سے کام کرنے کی عادات تسلیم کی جاتی ہیں۔ لہٰذا انسانی کارکردگی آئین و قانون اور بہتر اخلاقی اقدار کے اصولوں کے تحت سر انجام دینا ہی اس کی مطلوبہ ذمہ داری ہے۔ ہر طبقہئ فکر کے بڑے عہدہ داروں اور ملازمین کو انہی اصول و ضوابط کی پاسداری کر کے ان شعبوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ وطن عزیز کے مختلف مسائل اور مشکلات میں کم عرصوں میں ہی کامیابی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔
ملک کے دیگر بڑے شعبوں سے وابستہ حضرات کو بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے محنت اور دیانت کے اصولوں پر عمل کرنے میں خصوصی احتیاط اور توجہ دینا ضروری ہے۔سرکاری محکموں اور دفاتر میں ہر سال اربوں روپے کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات بہت افسوس ناک ہیں۔ ان پر اگر موثر اقدامات کے ذریعے قابو پایا جائے تو ملک کے معاشی حالات میں خاصی بہتری ہو سکتی ہے۔ اس لئے سب سیاسی رہنماؤں کو پہلے اپنے امور اور معاملات میں قومی دولت اور وسائل کی غیر آئینی اور غیر قانونی خورد برد سے پختہ عزم سے باز اور الگ رہنا ہوگا۔ ایسا مثبت کردار ادا کرنے سے سیاسی رہنما، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسران اور ملازمین کو بھی کرپشن میں ملوث ہونے سے کافی حد تک روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر وطن عزیز کی سالانہ سرکاری محکموں کی کرپشن میں کسی حد تک بھی کمی واقع ہو جائے تو امید واثق ہے کہ ہمارا ملک دیگر مملکت اور مالیاتی اداروں کے قرضوں کی واپس ادائیگی بھی محض آئندہ چند سال میں ہی کر کے اس مشکل ذمہ داری سے سرخرو ہو سکتا ہے کیا ہمارے رہنما قومی مفاد یہ کی ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں؟ کمر ہمت کس لینے سے اور اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔