درخت پر کلہاڑا یا سیاسی انداز کار

  درخت پر کلہاڑا یا سیاسی انداز کار
  درخت پر کلہاڑا یا سیاسی انداز کار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا ساتھی پروفیسر کہہ رہا تھا: "اس نے  امریکی ریاست کے ایک شہر میں اپنی آنکھوں سے ڈاکوؤں کی فائرنگ سے دو افراد مرتے دیکھے۔ لیکن کسی چینل پر اس کا ذکر دیکھا سنا نہ اخبارات میں کوئی خبر پڑھی۔ مارے تجسس کے پولیس چیف کے پاس چلا گیا۔ وہ بات سن کر بولا: "ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہماری ذمہ داری ہے، کوتاہی نہیں ہو گی۔ رہی خبر کی اشاعت تو اسے ذرائع ابلاغ اور پولیس میں خاموش مفاہمت سمجھ لیجئے۔ہم نے درجہ بندی کر رکھی ہے کہ کن جرائم کی خبر شائع ہو اور کن کی نہ ہو۔ ہم ہر خبر سے سنسنی پھیلائیں تو یہاں کاروبار ہو گا نہ سرمایہ کاری آئے گی۔ لوگ دوسری بستیوں میں جا  بسیں گے اور جرم کے لگاتار ذکر سے مزید لوگ جرائم پیشہ بن جائیں گے".

وہ برخوردار ایک سفارت خانے میں ذرائع ابلاغ کی خبروں کا خلاصہ تیار کرنے پر مامور تھا۔ ذرا کریدا تو بولا: "اس میں سرکاری اعلانات اور حزب اختلاف کا رویہ، امن عامہ، ذرائع ابلاغ کا لب و لہجہ، کے ای سی انڈکس، روپے کی قیمت، شرح سود اور دیگر امور شامل ہوتے ہیں  لیکن سر! افسوس یہ ہے کہ ہمیں معروف راہنماؤں کے بیانات کا خلاصہ بھی لکھنا ہوتا ہے جو ایک سطر میں یہ ہوتا ہے کہ "یہ حکومت دسمبر تک ختم ہو جائے گی" یا یہ کہ "فلاں کو چیف جسٹس ہننے دیجیے، حکومت ہو جائے گی"۔  یا یہ کہ "فلاں نے آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے کہ پاکستان کو قرضہ نہ دیا جائے"۔

 "سر، میں نے کسی حکومت  کا ایک دن نہیں دیکھا جب حکومت مخالف لوگ، بالخصوص پنڈی کے ایک معروف سیاست دان، حکومت کے خاتمے کی ہر روز--- جی ہاں ہر روز--- پیش گوئیاں کیا کرتے تھے۔ متعلقہ سفارت کار مرتبہ رپورٹ کا تجزیہ کر کے اپنے دفتر خارجہ کو روزانہ یہی سفارش کرتا کہ فی الحال پاکستان سرمایہ کاری یا تجارتی سرگرمیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ رپورٹ وہاں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو جاتی ہے۔ سر، درخت پر بیٹھے لوگ اسی ٹہنی پر کلہاڑی چلائیں جس پر بیٹھے ہیں تو بتائیے انکل! اس درخت کے سائے میں کون آ کر آرام کرنا چاہے گا"۔

آزادی صحافت جمہوریت کے لیے بلا شبہ ایک مقوی ٹانک ہے۔ لیکن اپنے ہاں اس آزادی سے جو سہولت مجرموں کو ملتی رہی ہے، اس کی ایک مثال کافی ہے۔ کوئی عشرہ قبل لاہور میں پولیس اور دہشت گردوں کے مابین مقابلہ آپ کو یاد ہوگا۔ دہشت گردوں کی عمارت کو گھیرے میں لیے پولیس مقابلہ کر رہی تھی۔ اور آزاد چینلوں کے آزاد نمائندے کیمرے لیے یہ کارروائی اپنے چینل پر براہ راست کچھ یوں سنا رہے تھے: "وہ دیکھئیے, پولیس کے جوان دائیں جانب سے چھپتے چھپاتے آہستگی کے ساتھ پچھلی کھڑکی کی طرف بڑھ رہے ہیں ". اور جونہی جوان آگے بڑھے تو ان پر گولیاں برسنے لگیں۔ اب آپ پولیس چیف کی فریاد ملاحظہ کریں: "ٹی وی چینلوں پر ہماری نقل و حرکت دیکھ کر دہشت گردوں کے ساتھی موبائل پر انہیں ہماری ہر حرکت سے آگاہ کر رہے تھے"۔

آزادی صحافت کا حالیہ ایڈیشن شنگھائی تعاون تنظیم کے عین اجلاس کے دن وزیراعلیٰ خیبر کا احتجاجی جلوس تھا۔ ایک لاڈلے نے کھیل تماشے کی خاطر رینجرز کے معصوم اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس وقوعے کو ایک یوٹیوبر تضحیک آمیز انداز میں کوئی اور ہی رنگ دے رہا تھا جو سراسر جھوٹ اور مجرم کی پشت پناہی تھی۔ جب اس یوٹیوبر کو گرفتار کیا گیا تو آزادی صحافت کے مبلغین چیخنے لگے۔ ملکی بربادی کی باقی کسر سیاسی و مذہبی جماعتیں راستے بند کر کے بذریعہ دھرنا نکالتی ہیں۔ احتجاج کا یہ وہ انوکھا انداز ہے جس میں اموات اور کروڑوں کی املاک نذر آتش ہونے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ لیکن اس احتجاجی انداز کی پشت پناہی مجرم نہیں، عدلیہ کے بعض معززین کرتے رہے ہیں۔

کسی وکیل سے کہیں شناخت ظاہر کرنے کو کہہ دیا جائے تو صوبے بھر کا عدالتی کام بند ہو جاتا ہے۔ قبائلی دشمنی پر لوگ لڑیں تو اسے فرقہ واریت کہہ کر ملکی نظام کو مفلوج کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں ریاست نے اگر کروٹ لے لی ہے تو عافیت اسی میں ہے کہ ہر اس اقدام کی ستائش کی جائے جو امن اور چین کو فروخت دے۔ پوری چھان پھٹک کے بعد لکھ رہا ہوں کہ 2018  میں انتخابی عمل ختم ہونے پر رات گئے تک بیلٹ پیپروں پر لاکھوں مہریں لگا کر نتائج تبدیل کر دیے گئے تھے۔ 2024 میں یہی مقصد فارم 45 کے مندرجات کو فارم 47 پر کماحقہ درج نہ کر کے حاصل کیا گیا۔ دونوں انتخابات کے نتائج عوامی رائے پر بھرپور ڈاکا ہیں۔ ہم لوگوں کے کالموں سے انتخابی نتائج یا حکومتیں تبدیل نہیں ہوں گی۔ لہذا یہ مجرمانہ فعل روکنے کے لیے اب  ہمیں حقیقی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

سیاست دان، اہل نظر، صحافی اور سیاسی کارکن وقت کی نبض پہچانیں، مآل کار پر نظر رکھیں اور تمام توانائیاں 2029 کے انتخابات کی تیاری پر صرف کریں۔ حکومت گرانے یا گرنے کا انتظار مت کریں۔ انتخابی قوانین کو پارلیمان کے اندر سے تبدیل کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ انتخابی نظام میں سے ہر وہ معمولی سا رخنہ تلاش کر کے بند کیا جائے جو نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ یہ کام کرنے میں اگر وفاقی حکومت متامل ہوئی تو وہ خود اس کا شکار ہوگی۔ لیکن  مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حکومت کا محاسبہ نہ کر کے میدان خالی چھوڑ دیا جائے۔ ہرگز نہیں!

کابینہ کا حالیہ پھیلاؤ, اعلیٰ حکام کی ناقابل یقین مراعات، نچلے طبقے کی بیچارگی، اشرافیہ کے ٹیکس دینے سے گریز کو حکومتی تحفظ، سوشل سیکیورٹی کا سکڑتا نظام،  بلدیاتی اداروں کا عدم وجود، سیاسی سرگرمیوں پر ناروا پابندیاں، اور ایسے متعدد موضوعات موجود ہیں جن کے خلاف رائے بنا کر اور حکومت کو زچ کر کے اگلے انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ 2018 کی وفاقی حکومت جس غلط کاری پر قائم ہوئی تھی، یہ حکومت اسی پر کھڑی ہے۔ تو کیا اس حکومت کو سابقہ جرم کی تلافی سمجھا جائے یا نیا جرم؟ یہ آپ کے سیاسی میلان پر منحصر ہے. میری رائے میں سارے کام چھوڑ کر انتخابات 2029 کی تیاری کی جائے. جس شجر پر ہمارا بسیرا ہے تب تک اس کے ٹہنے طاقت پکڑ لیں گے. درخت پر کلہاڑا چلا کر اپنی موت کا سامان نہ کیا جائے۔ سیاست صرف سیاسی انداز ہی میں پنپ سکتی ہے۔ ورنہ وہ جرائم اور آئین شکنی ہی کی  شکل ہوتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -