استحکام، استحکام، استحکام، مگر کیسے؟

   استحکام، استحکام، استحکام، مگر کیسے؟
   استحکام، استحکام، استحکام، مگر کیسے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم محمد شہبازشریف اپنی ٹیم کے ساتھ معیشت کی بحالی کے لئے سرگرداں ہیں۔ سعودی عرب میں کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی مل لئے اور وہاں کی تاجر، سرمایہ کار برادری سے بھی ملاقات کی، نتیجہ مثبت نکلا اور جو سرمایہ کاری پاکستان میں ظاہر کی گئی، اس دورے میں نہ صرف اس میں اضافہ ہو گیا بلکہ یادداشت کے معاہدوں پر عمل درآمد کی رفتار تیز ہونے کا بھی اعلان ہو گیا، اسی طرح انہوں نے قطر کے دورے میں بھی سرمایہ کاری لانے کی کوششوں کا عمل جاری رکھا۔

یہ عرض کرنے کا مقصد کوئی تعریف یا جانبداری نہیں، جو کام کرے، اس کے کام کی تو تعریف کرنا ہی چاہیے اور محمد شہبازشریف مسلسل کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سب متفق ہیں کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام کی ضرورت اور اہمیت ہے لیکن عملی طور پر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن سے تحریک انصاف تک سبھی اس عمل سے گریزاں ہیں حالانکہ بار بار خود کہتے ہیں کہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور اب تو مولانا اور تحریک انصاف ایک پیج پر آ کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے لگے ہیں، مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن یہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے کہ اس مطالبے کے اثرات کیا ہوں گے یوں بھی حالات حاضرہ میں برسراقتدار حضرات کیوں مانیں گے کہ ان کے مطابق تو ان کی کوششوں سے ملک دیوالیہ ہونے کے خدشے سے بچ گیا ہے اور بقول وزیراعظم اس مقصد کے لئے مسلم لیگ (ن) نے سیاست کو قربان کر دیا اور پہلے معیشت کو سنبھالنے کا کام کیا ہے، یوں محاذ آرائی میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں، تحریک انصاف کے بیرسٹر حضرات تو آپس کی بات بھی نہیں سنتے اب تحریک کا اعلان کرتے ہوئے تین لاکھ افراد جمع کرنے کا ہدف مقرر کرکے دھرنا دینے کااعلان کر دیا ہے، اسے تقویت دینے کے لئے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے بھی پھر سے بڑھک لگا دی ہے کہ وہ خیبر سے بڑا جلوس لے کر آئیں گے اور دھرنا دیئے بغیر واپس نہیں جائیں گے،ان کی اہمیت کا اندازہ لگالیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جیل حکام نے بیان دیا ہے کہ علی امین گنڈاپور کو بانی تحریک انصاف عمران خان سے ملنے کی ممانعت نہیں ہے، دوسری  طرف بیرسٹر حضرات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ان کو ملنے نہیں دیا جاتا اور یہ شکائت اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی کی گئی ہے، حالانکہ اب حکومت نے ملاقاتوں پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں اور جیل مینوئیل کے مطابق تو ہفتے میں ایک روز ملاقات کی اجازت ہوتی ہے لیکن بانی کی حد تک تو یہ سلوک کیا جاتا ہے کہ جو فہرست وہ دیتے ہیں، عموماً ان سب کو ملا دیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملنے والے آکر نہ صرف خود تحریک تحریک کھیلنے کا اعلان کرتے ہیں بلکہ خان محترم کا پیغام بھی نشر کرتے ہیں اور اب تو عمران خان کو عدالت سے یہ سہولت بھی مل گئی ہے کہ ان پر سیاسی بات چیت کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی چنانچہ وہ نہ صرف اپنی جماعت کے راہنماؤں سے کھل کر بات کریں گے،بلکہ مقدمات کی سماعت کے دوران وہاں موجود میڈیا کے حضرات سے بھی اپنے انداز کی گفتگو کر سکیں گے۔

تھوڑا سا اندازہ لگائیں کہ ملک کسی تحریک یا نئے انتخابات کا متحمل بھی ہو سکتا ہے کہ نہیں،جو حالات ہیں ان کے مطابق آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے بعد پاکستان کے لئے نئی امداد اور سرمایہ کاری کے دروازے بھی کھل گئے، چین کی طرف سے سی پیک کی تکمیل اور تعاون کا نہ صرف سلسلہ جاری ہے بلکہ اسے مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس وقت ملک میں امن ہو، تاکہ سرمایہ کاری فکر مندی کے بغیر ہو سکے لیکن ایسا نہیں ہو رہا، اس حوالے سے جن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ خود اپنی اداؤں پر غور کریں تو ان کو احساس ہوگا، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جاری نظام ہم عوام کے لئے مفید نہیں یا تو خالص اسلامی نظام رائج ہو، نہیں تو پھر سوشل ڈیموکریسی پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے کہ کہیں تو عوام کی بہتری ہو، اب تو ہر راستہ اشرافیہ کے لئے ہے اور سیاستدانوں کی قریباً پوری کھیپ کا تعلق اسی طبقہ سے ہے یہ لوگ خود کبھی قربانی نہیں دیتے ہمیشہ عوام سے ہی خون مانگتے ہیں، حکومت پاکستان نے غزہ اور لبنان کے مظلوم عوام کی امداد کا سلسلہ شروع کیا اور وزیراعظم نے باقاعدہ فنڈ قائم کرکے امداد کی اپیل کی ہے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اعداد و شمار بتا کر عوام کو مطلع کیا جائے کہ اشرافیہ کے طبقے میں سے کس کس نے کیا کیا دیا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایسی کسی صورت میں بھارت کی طرف سے امداد مانگی جائے تو ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ٹاٹا اور برلا کے علاوہ دوسرے سرمایہ دار کیا دیتے ہیں، کیا یہاں کبھی شوگر ملز کے مالکان نے بھی چندہ دیا ہے۔

میں تو دست بستہ پھر عرض کروں گا کہ میرے پیارے سیاستدانو! عوام کا نام لیتے ہو تو عوام کا خیال بھی کرو، اور ان کی کھال مسلسل کھینچنے سے پہلے نادہندہ اشرافیہ سے تو وصول کرلو، حالات یہ ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لئے بہت محنت ہوئی لیکن پیشکش صرف ایک ہوئی اور وہ بھی دس ارب کی۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ معاشی استحکام ہی کے لئے ایسے منصوبوں کو اب پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طریقے سے چلایا جائے۔ اس کے لئے ہمارے ملکی سرمایہ دار تیار ہو جائیں گے، ان کو ملازمین کی طرف سے یقین دہانی اور ملازمین کو جائز تحفظ دے دیا جائے۔ ہماری یہی ایئرلائن دنیا کی نمبرون تھی اور آج کی بہترین ایئر لائن اس کی پیداوار ہیں، پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ سے خسارے والے تمام منصوبے پھر سے منافع بخش ہو سکتے ہیں، اس سلسلے میں یقینا سیاسی جماعتوں سے یہ اپیل بے جا نہ ہوگی کہ وہ مداخلت نہ کریں اور اپنے کارکنوں کو گولڈن ہینڈشیک کے ذریعے اپنے پاس بلا لیں، حالات حاضرہ میں میری پھر یہی عرض ہے کہ اگر آپ سب کو ملک و قوم کا درد ہے تو پھر غیر مشروط طور پر کیوں نہیں مل بیٹھتے اور مذاکرات سے مسائل حل کرکے استحکام کی طرف قدم بڑھاتے اور غیروں سے توقع کیوں وابستہ کرتے ہو، یہ غیر کبھی بھی آپ کے یا آپ کے ملک کے دوست ہو سکتے، اب بھی بیٹھ جاؤ مذاکرات کرو حالات سنبھال لو۔

مزید :

رائے -کالم -