پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس ایف کنونشن اور بھٹو کی میراث
پیپلزپارٹی کی ذیلی طلبہ تنظیم پیپلزسٹوڈنٹس فیڈریشن پہلی بار پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایک بڑا کنونشن کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جہاں پی ایس ایف کو کبھی قدم جمانے کا موقع نہیں ملا۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا یہاں ہمیشہ غلبہ رہا ہے۔ ایسے بھی بے شمار واقعات ہو چکے ہیں جب کسی دوسری طلبہ تنظیم نے یہاں کوئی اجلاس کیا یا کیمپ لگایا تو اسلامی جمعیت نے اسے اکھاڑ دیاجس کی وجہ سے تصادم بھی ہوتے رہے۔ تاہم اس بار ایک اچھی روایت قائم ہوئی اور پنجاب یونیورسٹی میں ایک آزاد فضا دیکھنے میں آئی،اس کا کریڈٹ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کو بھی جاتا ہے جنہوں نے بہتر اقدامات کے ذریعے کسی بھی قسم کے تصادم کو رونما نہیں ہونے دیا۔ پی ایس ایف کے اس کنونشن کی تعریف اس لئے بھی کی جا رہی ہے کہ اس میں مخالفین کو نشانہ بنانے کی بجائے پیپلزپارٹی کی جمہوریت کے لئے قربانیوں اور کامیابیوں کا ذکر کیا گیا۔اس کنونشن کے لئے بہت زیادہ محنت اور تخلیقی عمل کو بروئے کار لا کر اسے بامعنی اور نوجوانوں کے ذہنوں میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی شخصیات کے وہ خاکے اجاگر کئے گئے جو شاید وقت کی گرد میں آج کی نسل کے لئے دب چکے ہیں۔ تاریخی واقعات کی ڈرامائی تجسیم کے ذریعے نئی نسل تک پہنچانے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کے آخری لمحات اور پھانسی کے منظر کی ڈرامائی تشکیل،بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے کی ری پروڈکشن، آصف علی زرداری کی گیارہ سالہ اسیری کے ڈرامائی حالات اور بہت کچھ اس کنونشن میں دکھایا گیا۔ مجھے میرے ایک دوست استاد نے بتایا جو کنونشن میں موجود تھے کہ جب ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے منتظر کو اسٹیج پر پورے سیاق و سباق سے دکھایا گیا تو پنڈال میں موجود ہزاروں طلباہ و طالبات نہ صرف دلچسپی سے دیکھتے رہے بلکہ جب لٹکنے کا منظر آیا تو کئی ایک کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ اس کنونشن کے حوالے سے جس نے بھی آئیڈیا دیا اسے عملی جامہ پہنایا، وہ ستائش کا مستحق ہے۔ عام طور پر ایسے کنونشن صرف جذباتی تقریروں اور مخالفین کو دھمکیاں دینے یا ان کی پگڑی اچھالنے تک محدود ہوتے ہیں لیکن اس کنونشن میں تخلیقی عمل کوبروئے کار لا کر بڑی کامیابی سے ذہن سازی کی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو ہماری قومی تاریخ کے واحد وزیراعظم ہیں جنہیں باقاعدہ تختہ دار پر لٹکا کر سزا دی گئی اگرچہ نوابزادہ لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو بھی غیر طبعی موت کا شکار ہوئے،لیکن قتل کئے جانے اور پھانسی چڑھانے میں بہت فرق ہے۔ قتل تو انسان اچانک ہو سکتا ہے جیسے نوابزادہ لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو ہوئیں کہ جلسوں میں انہیں نشانہ بنایا گیا تاہم پھانسی ایک ٹرائل کے بعد ہوتی ہے اور وقت سے پہلے موت کا پتہ بھی چل جاتا ہے جو بہت اذیت ناک بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو شاید ٹرائل کے دوران اندازہ نہ ہو کہ انہیں واقعی پھانسی چڑھا دیا جائے گا۔ تاہم جب ان کی سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہو گئی اور انہیں ڈیتھ سیل میں منتقل کر دیا گیا تو انہیں ضرور حالات کی سنگینی کا علم ہو گیا ہو گا پھر جب ان کی نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے ملاقات کرائی گئی۔ وہ رات انہوں نے کس اضطراب میں گزاری ہوگی جس کی صبح ان کی موت کا پیام لے کر طلوع ہونی تھی۔ اس کا اندازہ ان کے سوا کوئی نہیں کر سکتا جو سزائے موت پر عملدرامد کی اذیت سے گزرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے یہ شناخت تو کوئی نہیں چھین سکتا کہ اس کے بانی کو جمہوریت کا نام لینے پر ایک کمزور مقدمے کے باوجود تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ شاید یہی وہ اعزاز ہے جو اب تک پیپلزپارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جب زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو یہ جھوٹ نہیں ہوتا۔ بھٹو کی اس قربانی کو ان کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں اسی قربانی کی دین ہے کہ پیپلزپارٹی بار بار اقتدار میں آتی رہی ہے۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو بھی راولپنڈی میں ایک قاتلانہ حملے کی نذر ہوکر شہید ہوئیں، تاہم اس کے باوجود جو قربانی ذوالفقار علی بھٹو نے دی اور جس طرح ایک آمر نے انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے ریاستی طاقتوں کا استعمال کیا وہ اب ایک تاریخ ہے۔ بھٹو کے پاس بھی یہ آپشن تھا کہ وہ معافی نامہ لکھ کر جان بخشی کرالیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایسی کوئی گواہی یا تفصیل کبھی سامنے نہیں آئی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ضیاء الحق سے معافی مانگی ہو اور اسے رد کر دیا گیا ہو۔ سزائے موت کے بعد صدر مملکت سے رحمت کی اپیل بھی کی جاتی ہے، وہ بھی بھٹو نے نہیں کی اور پھانسی چڑھ گئے۔ پیپلزپارٹی بلاشبہ اس اساس کی واحد مالک ہے۔ کسی جماعت کے بانی کو ملک کی 77سالہ تاریخ میں تختہ دار پر نہیں چڑھایا گیا۔ آج پیپلزپارٹی طلبہ کنونشنوں کے ذریعے یہ منفرد شناخت نئی نسل تک پہنجانا چاہتی ہے۔ بہت اچھی بات ہے، اس قربانی کو جو جمہوریت کے لئے دی گئی مسلسل نمایاں کیا جانا چاہیے مگر کیا صرف اس ایک مثال سے پیپلزپارٹی آج کی نئی نسل کو اپنی طرف متوجہ یا قائل کر سکتی ہے؟ کیا اس کے سامنے آج کی مثالیں لانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، سب کچھ اس کے برعکس کرکے جو بانی پیپلزپارٹی نے کیا، اس لیگیسی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اگر اس طلبہ کنونشن میں کہا گیا پنجاب پیپلزپارٹی کا ہے اور جلد وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم بھی جیالا ہوگا، مگر کیا واقعی زمینی حقائق ایسے کسی معجزے کی طرف جا سکتے ہیں۔
اس وقت بھی بھٹو واقعی زندہ ہے تاہم وہ کئی دہائیاں ہو گئیں اب صرف سندھ تک محدود ہوگیا ہے۔ باقی ملک میں پیپلزپارٹی ایک اقلیتی جماعت کے طور پر موجود ہے۔ آج کل یہ تاثر عام ہے کہ پیپلزپارٹی نے اقتدار کے لئے اپنے نظریے پر سمجھوتہ کیا ہے۔26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں پیپلزپارٹی نے اہم کردارادا کیا اور بلاول بھٹو زرداری اس میں پیش پیش رہے۔ اس آئینی ترمیم کی منظوری میں جو غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اور جس طرح گنتی پوری کرنے کی خاطر وفاداریاں خریدی گئیں وہ سب طشت ازبام ہو چکی ہیں اب پارلیمنٹ کی بالادستی کا آپ جتنا مرضی فلک شگاف نعرہ لگاتے رہیں اگر آپ کے عملی اقدامات اس کی نفی کررہے ہیں تو پھر گویا آپ نے بہت حاصل کرنے کے باوجود بہت کچھ گنوا دیا ہے۔ بانی پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے ایک متفقہ آئین کی خاطر جو بھاگ دوڑ اور محنت کی تھی، بلاول بھٹو زرداری اس آئین میں ایسی ترمیم کے لئے جوڑتوڑ کرتے رہے جس کا کسی کو علم ہی نہیں تھا۔ پچھلے اڑھائی برسوں میں بنیادی آئینی حقوق کی پامالی پر پیپلزپارٹی نے کبھی احتجاج کیا اور نہ آواز اٹھائی۔ وہ مصلحتوں کا شکار ہوئی، ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کا تشخص اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کا تھا اب اس پر الزام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہی ہے۔ایک طرف یہ حقائق ہیں اور دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے منظر کو دکھا کر نوجوانوں کو متاثر کرنے کی کوششیں ہیں۔ دونوں میں سخت مقابلہ ہے، دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے۔