پنجابی ریسرچ میگزین ”پارکھ“ کے دو تازہ شمارے
”پارکھ“ شعبہ پنجابی لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین کا ریسرچ جرنل ہے۔ حال ہی میں اس کے دو شمارے (نمبر 4 اور 5) منظر عام پر آئے ہیں۔ اس کی ایڈیٹر شعبے کی سربراہ محترمہ ڈاکٹر مجاہدہ بٹ (ایسوسی ایٹ پروفیسر) ہیں۔ شمارہ 4 میں 8 مقالے شہ مکھی (یعنی اردو رسم الخط) اور ایک گورمکھی (سکھی رسم الخط) میں ہے۔ شمارہ 5 میں بھی اتنی ہی تعداد میں مقالات شامل ہیں۔ ”پارکھ“ شروع ہی سے آرٹ پیپر پر نہایت عمدہ گیٹ اپ پر شائع ہو رہا ہے۔ اس میں عموماً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پنجابی کی تدریس سے وابستہ اساتذہ کرام ہی کی تحریریں چھپتی ہیں، جن کا انداز سراسر تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ بڑی غنیمت بات ہے کہ سرکار نے پنجابی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لئے ایسے جرائد جاری کروا رکھے ہیں۔ ان میں چھپنے والے مقالات اساتذہ کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اور اس سے مزید تحقیق و تنقید کے راستے کھلتے ہیں۔
دونوں تازہ شماروں کی ایک بڑی خوبی موضوعات میں تنوع ہے ڈاکٹر محمد سلیم نے اگر پنجابی زبان کے ابتدائی زمانے کی نثر پر خامہ فرسائی کی ہے تو ڈاکٹر فیصل جپا نے پنجابی کے شاہ پوری لہجے کو موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر احسان اللہ طاہر نے پنجابی داستانوں کے ارتقا پر روشنی ڈالی ہے تو ڈاکٹر ثمینہ بتول نے پنجابی کے عظیم نقاد جناب نجم حسین سید کی تنقیدی کتاب ”ساراں“ کا جائزہ پیش کیا ہے۔ پنجابی فلم کے حوالے سے ڈاکٹر سونیا اللہ رکھا اور ڈاکٹر احمد بلال کے مقالات بھی قابل قدر ہیں۔
دیگر مقالات بھی بلا شبہ بہت محنت اور صحیح ادبی ذوق کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ البتہ ہم ایڈیٹر صاحبہ کے اس مقالے پر اظہار خیال کرنا ضروری خیال کرتے ہیں جو انہوں نے پی ایچ ڈی کی اسکالرہ محترمہ شاہدہ پروین کے ساتھ مل کر لکھا ہے اور جس کا عنوان ہے: سائیں مولا شاہ مجیٹھوی۔ اس شاعر کا دورِ زندگی 1876ء سے 1944ء تک کا ہے۔
پنجابی تذکروں میں اس کا ذکر ملتا ہے البتہ اس کے حالات زندگی اور اس کی تحریروں کا ڈاکٹر ظفر مقبول مرحوم نے بہت تفصیل سے تعارف کروا دیا تھا ان کی کئی کتابیں مرتب بھی کی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سائیں مولا شاہ کے اخلاف میں سے تھے اور پنجابی کے ایک معروف سیوک تھے۔ان کے بعد اگر دو اسکالر مولا شاہ کو موضوعِ تحقیق بناتے ہیں تو قارئین توقع رکھتے ہیں کہ انہوں نے مولا شاہ کی زندگی کے کچھ نئے پہلو دریافت کئے ہوں گے اور ان کی شاعرانہ صلاحیت نئے انداز سے زیر بحث لائی ہو گی۔ افسوس کہ زیر تبصرہ مقالہ میں دونوں اسکالرز کوئی نئی بات سامنے نہیں لا سکیں۔ ہمارے نزدیک ایسی ریسرچ بے سود ہے۔
ڈاکٹر ظفر مقبول مرحوم نے بھی مولا شاہ سے تمام اعلیٰ شعری خصوصیات منسوب کر دی تھیں مثلاً یہ کہ انہیں زبان پر پورا پورا عبور حاصل تھا، کمال کی منظر نگاری کرتے تھے، محاوروں، کہاوتوں، تشبیہوں اور استعاروں سے خوب کام لیتے تھے، قصوں میں پنجاب کے کلچر کی تصویر کاری کرتے تھے، صوفیانہ مسائل و معاملات پر گہری نظر اور گہرا تاریخی شعور رکھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ مقالہ نگاروں کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ جب آپ 22 صفحات سیاہ کرنے بیٹھے ہیں تو پھر بات محض دعووں تک تو نہ رکھیں بلکہ باقاعدہ مثالوں کے ساتھ شاعر کے فنی کمالات پر بھی تو اظہارِ خیال کریں۔ اس مقالے کا سب سے مکروہ پہلو یہ ہے کہ لفظ ”ڈھیر“ کا بے محابہ استعمال کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کے کئی مترادفات ہیں جن کو استعمال کرکے تکرار کے نقص سے بچا جا سکتا تھا لیکن لکھاری شاید اتنی معمولی سی بات سے بھی واقف نہیں کہ ایک ہی لفظ بار بار استعمال کیا جائے تو قاری کراہت محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہم پورے پورے فقروں کی جگہ ڈھیر کی مثال کے طور پر چند تراکیب درج کرتے ہیں۔
ڈھیر لکھتاں، ڈھیر نویکلی، ڈھیر اہم، ڈھیر تھاواں، ڈھیر وادھا، ڈھیر اُ گھڑواں، ڈھیر مٹھاس، ڈھیر قد آور، ڈھیرنویں محاورے، ڈھیر سوہنے ڈھنگ، ڈھیر گوڑھا وغیرہ اس پر مستزادیہ کہ مقالے کی زبان ایک تو علمی تاثر سے محروم ہے، دوسرے جملوں کی تکرار اتنی کثرت سے ہے کہ قاری کے ذوق پر سخت گراں گزرتی ہے۔ میرا ہر دو کو آتھرز کو مشورہ ہے کہ وہ ایک تو پنجابی کلاسیک کا مطالعہ تعمق نظر سے کریں دوسرے شریف کنجاہی کی اردو اور پنجابی تحریریں بھی پڑھیں، انہیں معلوم ہوگا کہ عالمانہ اور پر وقار زبان کسے کہتے ہیں۔ وہ زبان جس میں دھرتی کی باس رچی بسی ہوتی ہے۔ مدیرہ محترمہ کو مقالات کے Abstracts کی انگریزی پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ ان کے اپنے مقالے کے Abstract میں دو الفاظ کے ہجے غلط ہیں۔
مجموعی طور پر ”پارکھ“ کے دونوں شمارے اپنے مواد اور پیش کش کے اعتبار سے بہر حال قابل ستائش ہیں ہم ”پارکھ“ کی مدیرہ ڈاکٹر مجاہدہ بٹ، نگران استاد ڈاکٹر فرخندہ منظور اور وائس چانسلر صاحبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ ”پارکھ“ نے بلاشبہ پنجابی تنقیدی اور تحقیقی ادب میں اپنی ایک پہچان قائم کر لی ہے۔