قدم جمائیں مگر ۔ ۔ ۔
یاسر صاحب کا تعلق شکرگڑھ کی زرخیز مٹی سے ہے. یہ نویں کلاس میں سکول پڑھتے تھے.ناجانے انہیں کیا سوجھی کہ یہ 2003 میں سکول سے بھاگ کر لاہور پہنچ گئے.مختلف تندوروں پر روٹیاں لگانے کا کام کیا اور چند سالوں کے بعد اپنا تندور بنا لیا. پوری محنت اور جانفشانی سے کام کرتے رہے. اسی تندور پر ساتھ ناشتے کا کام شروع کیا اور پھر چند سالوں بعد ایک سے دو تندوروں کا سفر طے کرلیا. دوسرا تندور اچھا نا چل سکا جس کی وجہ سے نقصان اٹھایا اور پھر اسی ایک تندور پر واپس آگئے. انہوں نے ہمت نا ہاری اور کچھ عرصے کے بعد دوبارہ تندور شروع کیا لیکن بدقسمتی سے وہ بھی نا چل سکا اور یہ پھر ایک ہی تندور پر واپس پلٹ گئے. لیکن جب انسان عزم مصمم کرلے تو پھر راستے کھل ہی جاتے ہیں. انہوں نے جب تیسری دفعہ اپنا کاروبار ایک تندور سے دوسرے کی طرف بڑھانا چاہا تو وہ بفضل خدا چل پڑا اور انکا وہاں پر بھی ایک اچھا ناشتہ پوائنٹ بن گیا.
کچھ عرصے بعد دوسری برانچ پر انہوں نے ناشتے کے ساتھ رات کو باربی کیو بھی لگانا شروع کردیا. ان کا کاروبار خوب عروج پر جا رہا تھا کہ اچانک دوکان مالک نے ان کو نوٹس تھما دیا اور انہیں مجبوراً وہ دوکان چھوڑنا پڑ گئی. اس دوکان میں لاہور کا ایک مشہور برانڈ اپنی کڑاہی سجا کر بیٹھ گیا اور یوں انکا سالہا سال سے محنت سے تیار کردہ اڈہ کسی اور کے کاروبار کی آماجگاہ بن گیا.
انہوں نے بالکل اس کے ساتھ والی مگر اس سے تین گنا بڑی دوکان کے سارے ہی پورشن کرائے پر لے لیے اور میں ریسٹورنٹ بنانے کی ٹھان لی.یاسر کہتے ہیں کہ جب انہوں نے پہلے سے تین گنا زیادہ کرائے والی بلڈنگ لے لی تو روزانہ دل ڈرنے لگ گیا کہ میں اتنے پیسے کہاں سے لا کر اس کا کرایہ پورا کروں گا.لیکن کہتے ہیں نا "نیت صاف منزل آسان". یاسر نے اس بلڈنگ میں خدا کا نام لے کر اپنا نیا برانڈ متعارف کروا دیا اور اس میں انہوں نے تقریبا 60 سے زائد ڈشز کا ریسٹورنٹ قائم کردیا.
دوسری کہانی تلمبہ شہر کے ہمارے ایک دوست کی ہے. طارق رسول تلمبہ شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، نفیس شخص ہیں. وہ مولانا طارق جمیل صاحب کی ہمسائیگی میں رہتے ہیں. بچپن سے اچھی تعلیم ملی.گریجویشن کے بعد وہ پاکستان کے نامور ہوٹل کے ساتھ بطور مینجر کام کرنا شروع کردیا. پی سی ہوٹل کے ساتھ ان کا تجربہ اچھا رہا. وہاں سے انہوں نے ہوٹل مینجمنٹ کے تمام گر سیکھ لیے. انکی بیوی بھی پڑھی لکھی خاتون ہیں جو ایک بہت اچھے ادارے میں بطور پروفیسر اپنی خدمات سرانجام دیتی ہیں. طارق رسول کے پی سی ہوٹل میں کام کرتے ہوئے اچھے تعلقات بننا شروع ہوگئے. کئی سرمایہ کار ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں اپنے پاس نوکری کی دعوت دیتے اور ان کی نگرانی میں اپنا ہوٹل کھولنے کی خواہش کا اظہار کرتے. بالآخر انہوں نے اپنے ایک دوست کی دعوت قبول کرلی اور ان کے سرمائے کے ساتھ لاہور میں ایک شاندار ہوٹل شروع کردیا. اس ہوٹل کو انہوں راتوں رات اوج ثریا پر پہنچا دیا اور وہ لاہور کے بہترین ہوٹلوں میں شمار ہونے گا. طارق رسول نے چھوٹی ہی عمر میں اچھا مقام حاصل کرلیا. انہوں نے سوچا کہ اب میرے پاس اچھی تعلیم، پیسہ اور تجربہ ہے. اب نوکری کی بجائے اپنا کاروبار کرنا چاہیے. انہیں لگا کہ وہ اپنے تجربے کی وجہ سے دوسرے سرمایہ کاروں کو کروڑوں روپے کما کر دینے کی بجائے یہ پیسے کیوں نا خود کمائیں؟
انہوں نے نوکری سے معذرت کرلی اور اپنے کسی جاننے والے کے ساتھ کاروبار کا آغاز کردیا. اس میدان میں بھی وہ نہایت کامیابی سے چلنا شروع ہوگئے اور چند ماہ میں ہی انہوں نے اچھا خاصا کاروبار جما لیا. اسی دوران پاکستان میں کورونا آگیا اور تمام کاروبار بند ہوگئے. یہ کاروباری طبقے پر ایک مشکل وقت تھا اور طارق رسول کی زندگی میں پہلا مشکل وقت. بچپن سے لے کر 43 سال کی عمر تک انہوں نے ہر قدم پر صرف کامیابیاں ہی دیکھی تھیں. وہ کورونا جیسی پہلی آزمائش سے گررنے میں کامیاب نا ہوسکے. اس دوران ان پر کچھ قرض چڑھ گیا. قرض لوٹانا تھوڑا مشکل ہونے لگا تو لوگ ان کے دفتر کے چکر کاٹنا شروع ہوگئے. ایک دن کوئی شخص آیا اور اس نے انہیں قرض نا لوٹا پانے پر ناجانے کیا کیا بولا کہ طارق رسول کی یادداشت چلی گئی. انکی بیوی نے انہیں زندگی میں واپس لانے کے لیے بہت جتن لیے لیکن تاحال کامیاب نہیں ہوسکی. انکو انکے پرانے دوستوں کے پاس لے کر گئیں پرانی جگہیں دکھائیں، گزرا وقت یاد دلایا، لیکن انہیں کچھ یاد نا آیا. ایک پرانے دوست کے پاس مہینوں اس کو چھوڑ کر دیکھا لیکن بے سود رہا.
ڈاکٹرز کی بہت کوشش کے بعد اب تک وہ صرف 25 فیصد ٹھیک ہوسکے ہیں. کئی سال سے انکا علاج جاری ہے.
مجھے تجسس ہوا کہ آخر کون سا اتنا بڑا صدمہ تھا کہ جس نے انکی ہنستی مسکراتی زندگی اجاڑ دی. معلوم کرنے پر پتا چلا کہ قرض کی رقم کوئی بہت زیادہ نہیں تھی. جتنے پیسے انہوں نے مارکیٹ سے لینے تھے وہ بمشکل اس کی آدھی رقم تھی لیکن وہ صورتحال کو ہینڈل نا کرسکے اور یادداشت گنوا بیٹھے.
یہ دو بالکل سچی کہانیاں ہیں. ایک یاسر بالکل بے سروسامانی کے عالم میں نہم کلاس سے بھاگے، محنت مزدوری کی، ہوٹلوں میں دیہاڑی پر کام کیا.چھوٹا سا تندور لگایا آگے بڑھنے لگے ناکام ہوگئے نقصان کرلیا. ذرا سا سنبھلے تو پھر اگلا قدم اٹھانے کی کوشش کی تو گڑ پڑے. دوبارہ سنبھلے تو دوکان ہی ہاتھ سے جاتی رہی اور بالکل پھر وہیں کے وہیں کھڑے ہوگئے لیکن انہوں نے حالات کا مقابلہ کیا. ہر حال میں ثابت قدم رہے اور بالآخر وہ بڑے ریسٹورنٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اب وہ مزید اس کو بڑھانے میں مصروف ہیں.
دوسری جانب طارق صاحب ہیں کہ جو ناز و نکھرے کے ساتھ پڑھے. ہر قسم کی آسائش و آرائش دیکھی. تعلیم مکمل ہوتے ہی ایک شاندار نوکری کی. پیسہ کمایا. کامیابی سے کئی ہوٹل چلائے. تجربہ حاصل کیا لیکن ان کا تجربہ محض نوکری کرنے کا تھا جب انہوں نے کاروبار کیا تو ایک جھٹکا نا سہہ سکے اور یادداشت گنوا بیٹھے.
جب بھی کاروبار کریں یہ ضرور دیکھیں کہ آپ کے اندر صلاحیت کونسی ہے. آپکا دل کس کام میں لگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کاروبار کے منفی پہلو کون کون سے ہیں یہ ضرور جانیں. دوستوں سے مشورہ کریں ان منفی پہلوؤں کو اپنی ذات کے سامنے رکھ کر موازنہ کریں اگر آپ کے اندر ان سے نمٹنے کی صلاحیت ہو تو کام کریں وگرنہ جہاں لگے ہیں وہیں لگے رہیں..۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔