شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 48
پہلی رات دونوں بھینسے اپنے اپنے مقامات پر بند ھے رہے۔صبح کو میں چند آدمیوں کے ساتھ پہلے ڈولا کے جنگل والے بھینسے کو دیکھنے گیا۔بھینسا آرام سے بیٹھا جگالی کر رہا تھا وہاں سے ندی اور نالے کے اتصال پر بندھے ہوئے بھینسے کی طرف آیا۔یہ بھی صحیح سالم تھا۔
یہ بات ہمت افزا تھی کہ رات کو شیر اس بھینسے سے چالیس گز کے فاصلے سے گزرا تھا۔لیکن اس نے بھینسے کی طرف توجہ نہیں کی۔یا تو چالاکی کے پیشِ نظر اس نے یہ حرکت کی یا پیٹ بھرا ہوا ہوگا ۔بہر حال دونوں بھینسوں کو چارہ وغیرہ دے کر اسی جگہ رہنے دیا۔دوسری رات بھی بخیریت گزری۔اس رات تو شیر ان کی طرف سے بالکل ہی نہیں گزرا۔تیسری رات نالے اور ندی کے اتصال پر بندھا ہوا بھینسامارا گیا۔۔۔۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بھینسا باندھنے کے سلسلے میں ایک احتیاط یہ ضروری ہوتی ہے کہ اسے کسی میخ یا درخت سے اتنا مضبوط باندھا جائے کہ شیر اسے گھسیٹ کر نہ لے جاسکے۔اس بھینسے کو بھی مضبوطی سے باندھا گیا تھا،اس لیے شیر نے اس کو اسی جگہ بیٹھ کر کھایا اور باقی ماندہ حصے پر جھاڑیاں وغیرہ رکھ کر اسے چھپاگیا۔اتفاق سے اس مقام پر کوئی ایسا بڑا درخت نہیں تھا،جس پر مچان باندھی جاسکے۔لہٰذا میں نے بھینسے کی لاش سے کوئی بیس پچیس گز دور ایک چٹان کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا۔
یہاں یہ بات بتا دینا مناسب ہوگا کہ آدم خور کے شکار میں زمین پر بیٹھنے کی جرأت نامناسب ہے ۔عام حالات میں آدم خور ، شیر کے مقررہ فاصلے سے حملہ نہیں کرتا۔بیشتر مواقع پر وہ دبک کر قریب آتا اور آہستہ سے پکڑلیتا ہے ۔دوسرے یہ کہ عام شیر حملہ کرتے وقت زبردست نعرہ مارتے ہیں۔اس کے بر عکس آدم خور حملہ کرتے وقت اس قسم کا کوئی اعلان نہیں کرتا ۔۔۔آدم خور شیر کی حیثیت چور کی سی ہوتی ہے ۔ایسا چور جو سینہ زوری نہیں کرسکتا۔۔۔اور ظاہر ہے کہ چور کبھی چوری کرنے کا اعلان نہیں کرتا۔
جس چٹان کو میں نے بیٹھنے کے لئے منتخب کیا تھا۔ اس کے گرد جھاڑیوں اور چھوٹے چھوٹے درخت تھے۔میں نے اس چٹان پر بیٹھ کر اطراف کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ شیر اگر مجھ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرے تو میری بے خبری میں ایسا نہیں کر سکتا تھا سامنے ایک طرف تو نالا تھا جو اس چٹان سے کوئی بیس فٹ گہرائی میں تھا اور اس کی سطح بھی دونوں جانب بیس پچیس گز تک کھلی ہوئی تھی۔ دوسرا مقابل والا کنارہ کوئی چالیس گز کے فاصلے پر تھا۔ میری پچھلی طرف نا قابل گزار کانٹے وار جھاڑیاں تھیں۔دائیں جانب چھوٹے بڑے گول مٹول پتھر اس طریقے سے پھیلے ہوئے تھے کہ ان پر ذراسی حرکت دوچار پتھروں کو لڑھکا کر کچھ نہ کچھ آواز پیدا کر دیتی۔رہ گئی بائیں جانب تو ادھر چھدری جھاڑیاں اور راستہ تھا۔اسی طرف سے شیر آسکتا تھا اور کوئی شخص اس طرف نگرانی کرتا رہتا تو پچاس ساٹھ گز سے آتے ہوئے شیر کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
غروب آفتاب سے ایک گھنٹہ قبل ہی میں اس جگہ گیا اور ساتھیوں کے ساتھ چٹان پر بیٹھ گیا۔دلاور سب سے زیادہ معتبر آدمی تھا۔اس کو میں نے بائیں جانب منہ کر کے بیٹھنے کی ہدایت کی۔میری چارسوپچاس ایکسپریس اس کے پاس تھی۔اس کو میں نے یہ بھی بتایا کہ اگر شیر آیا تو اسی طرف سے آئے گا اور پہلے اسی کو دبائے گا۔یہ بات میں نے صرف اس لیے کہی تھی کہ وہ چوکس اور محتاط رہے۔دوسری طرف میں نے اپنے دوسرے ساتھی کو مقرر کیا اور خود بھینسے کی طرف رْخ کر کے بیٹھ گیا۔
گرمیوں کا زمانہ تھا اور چاندنی رات تھی۔ تیرھویں کا چاند ذرا دیر بعد ہی طلوع ہوا۔ادھر آفتاب عالم تاب نے اپنی قبائے زر سمیٹی ،ادھر چاندنی نے چہار جانب اپنا تبسم بکھرادیا۔
چاندنی کی وجہ سے کافی فاصلے تک صاف نظر آتا تھا۔میں نے ایک لمحے کے لیے بھی بھینسے پر سے نظر نہیں ہٹائی۔اْمید تو یہ تھی کہ غروب کے بعد ہی شیر آجائے گا۔لیکن نو بجے تک بھی اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔نوبجے کے بعد اِکا دْکا بادل کے ٹکڑے جمع ہونے شروع ہوئے اور ساڑھے دس بجے تک گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔
اب تک جوجنگل چاندنی کے نور میں جگمگا رہاتھا ،اچانک تاریکیوں کے بحر بیکراں میں غرق ہو گیا۔ساتھ ہی ایک عجیب سا ہیبت ناک سنا ٹا طاری ہوگیا۔تاریکی کا یہ عالم تھا کہ بھینسا توساری بات ہے،وہ جھاڑی بھی نظر نہیں آتی تھی ،جس کی آڑ لیے ہم لوگ بیٹھے تھے۔ایسے میں اگر آدم خور آجاتا تو کیا خاک نظر آتا۔
اس وقت میرے ہاتھ میں تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم تھی اور سامنے زمین پر تھری اسپرنگ فیلڈ لوڈ کی ہوئی پڑی تھی۔دلاور کے ہاتھ میں میری عزیز چار سو پچاس ایکسپریس اور دوسرے نگران کے ہاتھ میں بارہ بور بندوق تھی۔اس کے باوجود دل پر ایک عجیب خوف کی کیفیت طاری ہو رہی تھی ۔۔۔میں نے اپنی فلیش لائٹ سامنے ہی رکھ چھوڑی تھی اور اس کو ایک مضبوط ڈوری سے کوٹ کے بٹن سے باندھ رکھا تھا۔بار بار دل چاہتا کہ لائٹ جلا دوں ،لیکن ہاتھ کو جنبش دینے کی ہمت نہ ہوتی۔
اس دن مجھے رات کو زمین پر بیٹھنے کے نقصانات کا احساس ہوا۔میں نے وہاں بیٹھنے کا فیصلہ کرکے بہت غلطی کی تھی ۔مالوے کے علاقے میں کسی وقت بھی بادلوں کے جمع ہونے کا امکان ہوتا ہے۔یہ جگہ منتخب کرتے وقت یہ بات میرے دماغ میں نہیں آئی تھی،ورنہ میں زمین پر ہر گز نہ بیٹھتا۔اس کے علاوہ بار بار آدم خور کا خیال آتا اور ایسا معلوم ہوتا جیسے ابھی ابھی تاریکی کے کسی گوشے سے شیر سر نکال کر ہم میں سے کسی کو پکڑے گا۔
اس سے پہلے بھی میں بارہا رات کو گھنے اور خطرناک جنگلوں میں بیٹھا ہوں اور اس واقعے کے بعد بھی کئی دفعہ یہ اتفاق ہوا۔لیکن اس روز مجھ پر جو کیفیت طاری ہوئی،وہ عجیب ہی تھی۔نہ اس رات سے پہلے کبھی ایسی حالت ہوئی تھی نہ اس کے بعد کبھی خوف و ہراس کا یہ عالم ہوا۔۔۔کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی ٹک ٹک صاف سنائی دے رہی تھی ،لیکن ایسا لگتا،جیسے یہ آواز بھی سکوت وتاریکی کا ایک جزو ہو۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
دل کوئی آواز سننے کو بے چین تھا۔۔۔۔کوئی بھی آواز۔۔۔۔لیکن ایسے گہرے سکوت اور اتنی شدید تاریکی میں آوازیں بھی ڈوب چکی تھیں۔۔۔میں سوچ رہا تھا،اگر بجلی چمکنے لگے تو بادل بھی گرجے گا اور کوئی آواز نہیں ہوتی تو بادل گرجنے کی آواز ہی سہی۔لیکن وہ تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے سارے جنگل پر جادو کر دیا ہے،جیسے ہر چیز کی روح قبض کرلی گئی ہے۔
اور پھر نظر ذرا دائیں طرف ہٹی تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔ایک بے آواز سایہ ہوا میں تیرتا گزرگیا۔۔۔میں دونوں ہاتھوں سے رائفل مضبوطی سے تھامے آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھنے کی ناکام کوشش کررہا تھاکہ دوبارہ وہی پُر اسرار سایہ بائیں طرف جاتا ہوا نظر آیا۔۔(جاری ہے )