اور ہم مسلمان؟
ہماری نوجوانی کے دور میں جدید دور جیسی سہولتیں نہیں تھیں۔ تاہم دین سے لگاﺅ آج سے کہیں بہتر تھا۔ تب علماءکرام کی حیثیت پیروں جیسی ہوتی تھی اور علماءبھی اہمیت رکھتے تھے۔ تب سے اب تک مُلا ازم کا سلسلہ بہر حال جاری ہے اگرچہ جدید دور نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ان سے دور کر دیا ہے۔ تاہم عقائد کا برا حال کر کے جو ”عقل“ ان حضرات کی بدولت ملی وہ ورثہ اب بھی موجود ہے۔ میں نے بات اپنی نوجوانی کے دور سے شروع کی۔ تب حج بیت اللہ بہت بڑی سعادت تو تھی تاہم ذرائع مواصلات کی موجودہ جدید سہولتیں نہیں تھیں، اور حج بیت اللہ کے لئے بحری سفر کرنا ہوتا تھا۔ حجاج کرام ٹرین سے کراچی جاتے اور بحری جہاز کے ذریعے کئی روز کے سفر کے بعد جدہ کی بندر گاہ پہنچ کر فریضہ حج کے ارکان ادا کرتے تھے۔ تب حج پر روانگی ایک اعزاز تھا عموماً اولاد والدین کے لئے یہ اہتمام کرتی، ہم نے خود اپنی والدہ کو تب ہی حج کے لئے بھیجا یہ حضرات زیادہ تر کم علم اور دینی رجحان کے حامل ہوتے تھے تاہم ان کی لگن میں شبہ کی گنجائش نہیں تھی۔ آج کل ایئرپورٹوں پر رونق ہوتی ہے تب ریلوے سٹیشن پُررونق تھے، روانگی سے پہلے قوالی یا میلاد النبی کا اہتمام ہوتا اور ریلوے سٹیشن نعتوں سے گونجتا تھا۔ یہ حجاج واپسی کے بعد بھی پرہیز گاری کا اہتمام کرتے تھے۔ تب کی سفری صعوبتوں کا بھی ذکر کرتے اور مکہ و مدینہ کے احوال بھی بتاتے تھے۔
ایسے ہی ایک قافلے کی واپسی ہوئی تو ان میں ہمارے ایک دوست کے چچا بھی تھے۔ تب کے مڈل پاس تھے،ان کے استقبال کے بعد گھر آئے اور کھانا کھایا جو ان کے اعزاز میں پُرتکلف تھا، ان سے بات چیت ہو رہی تھی، گفتگو کے دوران انہوں نے عربی بھائیوں کا بڑے احترام سے ذکر کیا ، وہ بتا رہے تھے کہ عرب بھائی ہر وقت تلاوت کرتے رہتے ہیں بلکہ کوئی ان کو گالی بھی دے تو وہ جواب میں آیات پڑھتے ہیں، ماشاءاللہ میں نے یہ پرانی بات بتائی ہے۔ آج اس دور کو گزرے کئی دہائیاں ہو گئیں۔ زمانہ ترقی کر گیا۔ پندرہ روزہ بحری سفر سمٹ کر ڈھائی تین گھنٹے پر محدود ہو گیا اور سمندر پر تیر کر جانے کی بجائے فضا میں اڑا کر لے جانے والے پرندے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ سب کچھ بدل گیا لیکن ہماری سادگی( معاف کیجئے جہالت لکھنے سے گریز کیا)، بوجہ جوں کی توں ہے آج بھی ہم عربی زبان کو آیات ہی کا درجہ دیتے ہیں اگرچہ اتنا فرق ہوا کہ اب ہم واپسی پر یہ نہیں کہتے کہ کسی عربی کو گالی دو تو وہ جواب میں آیات پڑھتا ہے۔ تاہم عادات میں تبدیلی نہیں آئی۔ عربی قاعدہ بھی نہ پڑھا ہو لیکن عربی رسم الخط کو پہچانتے ہیں اور ہر عربی تحریر ہمارے لئے آیت ہی ہوتی ہے، اس صورت حال کا مظاہرہ حال ہی میں اچھرہ کے بازار میں ہوا جب ایک خاتون کو محض ایک ایسا لباس پہننے پر جان کے لالے پڑ گئے، مجھے یاد ہے کہ اس سے کئی ماہ قبل ایک دوکان دار کو اس فیشن کا کپڑا منگوانا بہت مہنگا پڑ گیا تھا کہ جونہی تھان کھولا اس کو خبردار کر دیا گیا، چنانچہ سارا مال واپس کر کے خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ یہ سلسلہ تھم ہی نہیں رہا، اگر کوئی بات کرے تو اسے علم دین غازی (شہید) کا طعنہ سننا پڑتا ہے حالانکہ ان حضرات کو اس واقع اور جانبازی کے پورے حقائق بھی معلوم نہیں ہوتے کہ غازی علم دین شہید نے تو جان شان رسالت میں گستاخی برداشت نہ کرنے کی بناءپر قربان کی تھی اور یہاں ”حرمت قرآن“ کا سوال پیدا کر دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں طویل بات کی جا سکتی ہے لیکن نتیجہ یہی ہے کہ زمانہ بہت ترقی کر گیا ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پچاس ساٹھ سال پہلے تھے اور ہمارا آج کا ملا بھی تبدیل ہونے سے منکر ہے ، اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے سلسلے کے علاوہ بھی پیری مریدی ایک دھندا بن چکی ہے، اس کی وجہ سے حقیقی پرہیز گار اور واعظ بھی متاثر ہو رہے ہیں اور ہماری یہی کم علمی ہے جس کے باعث ان دنوں مغربی تعلیم والے حضرات ملا ازم کی ایک نئی صورت سے متاثر ہیں اور یہ ففتھ جنریشن وار کہلاتی ہے جس کا ذریعہ آج کے دور کی مواصلاتی ایجاد ہے، جو موبائل کی شکل میں ہر تیسرے فرد (نو عمر+ نوجوان اکثریت میں ہیں) کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ راہ چلتے سفر کرتے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے بھی کھیلتا رہتا ہے اور حالیہ جدید دور کے بانیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اسے ہی ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے وہ پڑھے لکھے اور آنرز بھی متاثر ہیں جو خود آئی ٹی میں سند یافتہ ہیں، اور ہم بحیثیت قوم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے سے تحمل اور بردباری عنقا ہو گئی، اب ہوش پر جوش غالب اور سوشل میڈیا ہی حقیقت ہے اس کا اعتراف ہمارے سیاست دان حضرات نے بھی کر لیا ہے اور وہ بھی اب یوٹیوبرز سے باقاعدہ ملاقاتیں کرتے اور بلا گر حضرات کو اپنے موقف سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ٹیکنالوجی ہمارے معاشرے میں اس حد تک نفوذ کر گئی کہ نوجوان یا بڑھتی عمر کے بچے کے پیر میں جوتا پرانا اور گھسا ہوا ہوتا ہے لیکن ہاتھ میں 30 ہزار روپے سے زیادہ مالیت کا موبائل ضرور ہوتا ہے اور پھر یہ افراد متاثر بھی بہت ہوتے ہیں اور ہمارا آج کا معاشرہ اسی پریشانی کا شکار ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی سے ترقی یافتہ ممالک نے تو بہت کچھ حاصل کر لیا ہے، ہم نہ تو قومی سطح پر مستفید ہوئے اور نہ ہی معاشرے نے کوئی ترقی کی بلکہ تنزلی کی یہ حالت ہے کہ اس کے ذریعے طرح طرح کے فراڈ اور جعلسازیوں کے دروازے کھل گئے ہیں بلیک میلنگ اور ہراسگی کا سلسلہ جاری ہے، نوجوان لڑکیاں اور خواتین تو شکار ہیں لیکن عام شہری بھی اس کی تیشہ زنی سے محفوظ نہیں رہے۔
بات کہاں سے چلی اور کدھر چلی گئی ہم بحیثیت مجموعی سب اس سے متاثر ہیں لیکن اسی طرح سمجھنے کو تیار نہیں جیسے خاتون کے لباس کے پرنٹ کو سمجھے بغیر مشتعل ہو کر ناحق خون کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔
بات کو اس یاد دہانی کے بعد ختم کرتا ہوں کہ ہمارے پیغمبر نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو حادی برحق اور آنے والے زمانوں کی بھی خبر دینے والے ہیں، انہی کی جو احادیث مبارکہ قیامت اور اس سے پہلے کے حالات کے بارے میں ہم تک پہنچی ہیں آج کے دور کی ہر خرابی کے بارے میں وضاحت اور ہدایت موجود ہے ، اِنہی احادیث میں بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے پاس سیال سونا ہوگا، ان کے پاس آسمان کو چھوتی عمارتیں بھی ہوں گی لیکن ایمان کمزور ہوگا۔ جھوٹ اور فریب کا دور دورہ ہوگا۔ کافر (ایمان والے اہل کتاب شامل نہیں) غالب ہوں گے اور مسلمان بکھرے ہوں گے۔ جھوٹ، فریب عام اور دجالی جیسی صفات کے حامل لوگ نظر آئیں گے اور ایسا دور ہی قرب قیامت کے آثار میں شامل ہے۔ آج ہم مجموعی طور پر جھوٹ کے عادی، دھوکا دہی کے ماہر، ملاوٹ کرنے اور ذخیرہ اندوزی سے ناجائز منافع کمانے والے ہیں۔ حج اور عمرے کرتے ہیں لیکن ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔ پیشہ تجارت سب سے اعلیٰ اور متبرک قرار دیا گیا اور آج ہم کو اپنے تاجر حضرات سے شکایات ہیں حتیٰ کہ زہر بھی خالص نہیں ملتا باقی رہ گئی منافع خوری تو اس کی کوئی حد ہی نہیں رہ گئی جہاں تک کفار کے غلبہ کی بات ہے تو اس کی تازہ ترین مثال غزہ ہے جہاں انسانیت کشی مسلسل جاری اور ہم مسلمان ”خیبر شکن“ اس اسرائیل کے دوست ہیں۔