نڈر اوربے باک جبار مرزا کی صحافتی یادیں

صحافتی یادیں،یہ کتاب پاکستان کے سینئر، نڈر اور دلیر صحافی جبار مرزاکی خود نوشت ہے۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہو گا کہ جبار مرزا بھرپور زندگی جینے والی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے دل اور دماغ میں حیرتوں کا ایک جہان آباد ہے۔ وہ ساری زندگی خطرات سے کھیلتے آئے ہیں،لیکن کسی بھی لمحے ان کے پاؤں میں لغزش نہیں آئی۔سوہنی، مہینوال سے ملنے کے لئے گھڑے پر تیرکر دریائے چناب عبور کرتی تھی لیکن جبار مرزااپنی محبت کو پانے کے لئے بغیر گھڑے کے ہی دریا کی مونہہ زور لہروں سے دست بدست جنگ کرتے ہوئے اپنے مقصد اور محبوب تک جا پہنچے۔پھر کتاب لکھ دی کہ پہل اس نے کی تھی۔اگر پہل اس نے کی تھی تو انتہاء جبارمرزا نے کی تھی۔یہ بات ان کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے محبت کی تو کھل کھلا کر کی۔اگرکسی سے دشمنی کی تو قبرکی دیواروں تک دشمنی کو نبھایا۔ان کی شخصیت کے کئی پہلو اور روپ ہیں، کہیں وہ شہرہ آفاق ادیب دکھائی دیتے ہیں تو کہیں وہ صحافیوں کی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جبار مرزا نے پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان سے تمام تر مخالفتوں اور جان لیوا خطرات کے باوجود نہ صرف دوستی کی بلکہ اس عظیم دوستی کو ہرقیمت پر نبھایا بھی۔ جبار مرزا آٹھ دس کتابوں کے مصنف ہیں۔”صحافتی یادیں“ کتاب میں تمام مضامین ہی منفرد، دلچسپ اور مزیدار ہیں، لیکن مجھے سب سے زیادہ دلچسپ مضمون ”شریف فاروق بنام محمد افضل پرویز“ لگا۔جبار مرزا لکھتے ہیں کہ محمد افضل (کاتب) لاہور کے سعدی پارک میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھا۔اس کی ماں کو جب طلاق ہوئی تو وہ اپنے بچوں کو لے کر ساہیوال چلی گئی۔ افضل پرویز نے وہاں کتابت سیکھی اور لاہور آ کراخبار میں ملازمت اختیار کرلی۔ایک حادثاتی شام اچانک اس کی شادی ہوگئی۔قصہ کچھ یوں تھا۔افضل پرویز اپنے گھر میں بیٹھا اپنی بہنوں کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر ان کے مستقبل کے بارے میں بتارہا تھا، بہنوں کی ایک خوبصورت سہیلی بھی وہاں موجود تھی،دیکھا دیکھی اس نے بھی اپنا ہاتھ سامنے کر دیا اور کہاافضل دیکھو،میری شادی کہاں ہو گی؟ افضل بولے پنجاب اور لاہور میں ہوگی۔فاطمہ نے غصے میں کہا غلط۔فاطمہ بولی اچھا یہ بتاؤ وہ کیسا ہوگا؟ افضل بولا میرے جیسا ہوگا۔فاطمہ نے انتہائی نفرت سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا تم جیسے کو تو میں نوکر بھی نہ رکھوں۔یہ کہتے ہوئے فاطمہ گھر سے باہر نکل گئی۔اس وقت افضل پرویز "جہاں نما" اخبارمیں بطور کاتب ملازم تھا۔شعبہ اشتہارات کے انچارج شیخ اسلم نے ایک دن افضل پرویز سے کہا ہمارے اخبار کے مالک شریف فاروق بیوی کے انتقال کے بعد شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ جلدسے جلد ان کی شادی ہو جائے۔افضل پرویز کو شرارت سوجھی،اس نے کہا کیوں نہ فاطمہ کی شادی شریف فاروق سے کرا دی جائے۔نظروں کے سامنے بھی رہے گی۔ چنانچہ شیخ اسلم اور نوید عالم۔فاطمہ کے دادا (جو فیصل آباد میں رہائش پذیر تھے) ملنے فیصل آبادجا پہنچے۔ پتہ نہیں کیا سبز باغ دکھائے کہ وہ رشتے کے لئے مان گئے،بلکہ انہیں اپنے ہمراہ لاہور بھی لے آئے۔ 23فروری 1967ء بروز جمعرات شادی کی تاریخ طے پا ئی۔ابھی مہینہ سوا مہینہ باقی تھا۔شادی کی بھرپور تیاریا ں شروع ہوگئیں۔شادی کارڈ پرنٹ کرانا اور تقسیم کرنے کا کام افضل کے ذمے لگادیا گیا۔ برطانیہ میں فاطمہ کے والد داؤد کو بھی شادی کارڈ بھیج دیا گیا۔اس دوران شریف فاروق نے نوید عالم کا گھر پندرہ دن کے لئے لے کر حجلہ عروسی کے لیے افضل پرویز کو تیار کرنے کی ذمہ داری دے دی۔افضل نے اتنی محبت اور دیانت سے کمرہ سجایا کہ جو بھی دیکھتا اش اش کراُٹھتا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب مہمانوں سے پنڈال بھر چکاتھا۔نکاح خواں پہنچ گئے۔تین چار ڈشیز میزوں پر سجا دی گئیں۔ بوفے لنچ سج گیا۔نکاح نامہ مکمل کرلیا گیا کہ برطانیہ سے فاطمہ کے والد داؤد بھی پہنچ گئے۔وہ بہت خوش تھے۔ انہوں نے لڑکے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو شریف فاروق نے اپنے آپ کو پیش کیا۔داؤد نے کہا نہیں مجھے لڑکا دکھاؤ، جس سے میری بیٹی کی شادی ہورہی ہے۔شریف فاروق نے کہا مجھ سے ہی شادی ہورہی ہے۔ یہ سُن کرداؤد بولا یہ شادی نہیں ہوسکتی۔ایک رپورٹر بولا ہمیں کیا پتہ کہ تم ہی لڑکی کے والد ہو۔داؤد نے کہا وہ سامنے میرے والد بیٹھے ہیں۔ رپورٹر نے کہا وہ لڑکی کے ولی ہیں، نکاح کی اجازت دے چکے ہیں۔اس پرنکاح خواں بولا دادا نکاح کی اجازت دے چکے ہیں لیکن لڑکی کے والد بھی پہنچ گئے ہیں تو وہ تجدید عہد کریں اور لڑکی کے والد کو دلی مقرر کرنے کا اعلان کریں۔اس پر داؤد بولا میں نکاح نہیں ہونے دوں گا۔ شریف فاروق نے کہا اچھا اپنی شناخت کرائیں۔ داؤد نے اپنا پاسپورٹ دکھایا۔داؤد کی تصدیق ہوگئی کہ وہی لڑکی کے حقیقی والد ہیں۔شریف فاروق، داؤد کو علیحدہ لے گئے اور بھاری رقم کی آفر بھی کی۔داؤد نہ مانے۔”جہاں نما“ اخبارکی ملکیت کی آفر بھی کی۔کچھ زمین تحفے میں دینا چاہی۔داؤد نے کہا ممکن ہی نہیں۔روپیہ پیسہ سب میرے پاس بے تحاشا ہے۔ہم زمین جائیداد والے لوگ ہیں۔ مجھے کسی قسم کا لالچ نہ دیں۔داؤد نے کہا یہ ممکن ہی نہیں۔کہا گیا، کھانا بھی لگ چکا ہے۔مہمان موجود ہیں۔ایسے میں آپ پریشان کر رہے ہیں۔ داؤد نے مولوی سے مخاطب ہو کر کہا نکاح نہ کرانا، اگر زبردستی نکاح کیا تومیں اتنے جوتے ماروں گا کہ تو آئندہ کسی کا نکاح نہیں پڑھائے گا۔ سب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے۔افراتفری سراٹھاتی دیکھی تو چند سینئر خبار نویس مالکان نے داؤد سے پوچھا آپ نے ساری مخلصانہ آفرز ٹھکرا دیں۔اب آپ خود ہی بتائیں کیا ہونا چاہئے۔داؤد نے کہاشریف فاروق سے نکاح نہیں ہونے دوں گا۔باقی آپ جو کہیں گے مان لوں گا۔ داؤد نے کہا یہاں اتنے لوگوں میں سے جو کوئی بھی میری بیٹی کے قریب قریب عمر کا ہو گااس سے نکاح کردیں تاکہ آپ لوگوں کو یقین ہوجائے کہ میں کسی لالچ میں ایسا نہیں کررہا۔بتایا گیا یہاں سارے لوگ ہی بڑی عمر کے ہیں۔ شریف فاروق اگر 40سال کے ہیں تو باقی پچاس پچاس ساٹھ سال کے ہیں۔پھر آواز آئی۔ایک کاتب ہے جو 23/24سال کا ہے۔داؤد نے کہا اس سے میری بیٹی کا نکاح کرادیں۔داؤد۔شریف فاروق کو ٹھکرا کے کاتب پر مان گئے۔ داؤد کو بتایا گیا کہ آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ کاتب بہت چھوٹا عہدہ ہوتا ہے۔داؤد نے کہا مجھے عہدوں سے نہیں۔ہان کو ہان پیارا ہے۔کاتب افضل پرویز کو بلایا گیا۔ نکاح نامے پر شریف فاروق کا نام کاٹ کے محمد افضل پرویز کا نام لکھا گیا۔ولدیت اور عمریں بھی تبدیل ہوئیں۔ خطبہ نکاح ہوا۔محمد افضل پرویز جو تن تنہاگھر سے آیا تھا بیگم کو لے کے گھر لوٹا۔ وہ حجلہ عروسی جو افضل نے اپنے ہاتھوں سے شریف فاروق کے لیے تیار کی تھی اس کا اپنا نصیب بنی۔افضل نے گھونگھٹ میں بیٹھی فاطمہ کو مخاطب کرکے کہا۔ یہ سارا کچھ آنا فاناہوگیا۔مجھے اندازہ ہے کہ میں آپ کے سٹیٹس کا نہیں ہوں۔آپ اجازت دیں تو میں اسی طرح امانت آپ کے والد کو لوٹا دوں گا۔فاطمہ بولی یہ فیصلہ کہیں اور ہوا۔بہت بڑی عدالت کا فیصلہ ہے۔ یہ آسمان کا نہیں۔سات آسمانوں سے بھی اوپر سدرہ المنتہیٰ سے بھی پرے عرش معلی پہ آپ کے لئے عدالت لگائی گئی۔۔۔میں خوش ہوں۔۔۔آپ کو نوکر بھی نہ رکھنے کا تکبر کیا تھا۔۔۔آندھی میں ٹوٹے ہوئے بیر کی طرح میں آپ کی جھولی میں آگری ہوں۔مجھے معاف کردیں۔
٭٭٭٭٭