یوم ِ آزادیء صحافت اور ” اتحاد ِ ثلاثہ “

آج پوری دنیا میں آزادیء صحافت کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہےجس کا مقصد اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانا ہے اور جہاں پر صحافت پابند ہے وہاں اس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہے ۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں آزادیء صحافت مختلف مراحل سے گزرتی رہی کبھی محدود انداز میں اور کبھی مصلحت کے انداز میں ۔ یہاں پر آزادیء صحافت کا عمومی مطلب یہ لیا جا تا رہا کہ صحافت کی آزادی کا مطلب میڈیا مالکان کی آزادی ہے سو یہاں پر ( شعوری یا غیر شعوری طور پر ) بیشتر جدوجہد اسی مقصد کے حصول کے لیے ہی ہوتی رہی ۔ستر اور اسی کی دہائی میں ضیائی مارشل لا ء کے دور ِ نا مسعود میں البتہ جو جدوجہد آزادی رائے اور آزادیء اظہار کے حصول کے لیے کی گئی اس میں ہمارے جینئن صحافی شریک تھے اور وہ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے میدان عمل میں مصروف ِ جدوجہد رہے ا ور اس راہ میں مسائل و مشکلات سے بھی دو چار ہوئے اور جسمانی تشدد بھی برداشت کرنا پڑا لیکن بھاری قیمت چکانے کے باوجود بدقسمتی سے یہ جدوجہد اپنے مطلوبہ مقاصد اور ثمرات حاصل نہیں کر پائی۔یہ ضرور ہوا کہ حکومتوں اور صاحبان ِ اقتدار کو صحافت کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ ہو گیا اور پھر انہوں نے اسی صحافی برادری ہی میں شامل کچھ کالی بھیڑوں ، ضمیر فروشوں او ر مفاد پرستوں کو خرید کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
حکومت ، میڈیا مالکان اور پیشہ ور ” صحافی رہنماوں “ کی ٹرایئکا نے صحافت کو یر غمال بنا رکھا ہے اور صورت حال یہ ہے صحافت بد ترین صورت ِ حال سے دوچار ہے۔اس عظیم پیشہ سے وابستہ کارکن صحافی گزشتہ ستر سال کے عرصہ میں پہلی مرتبہ مظلوم ، مقہور اور محروم طبقات میں شامل ہو چکے ہیں ۔ بہت بڑی تعداد میں صحافی کارکن بیروز گاری کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی بات کرنے والے اس طبقے کو حکومت ، میڈیا مالکان اور ” پیشہ وروں “ کے غیر علانیہ اتحاد ( اتحاد ِ ٹلاثہ ) نے حقیقی صحافیوں کو عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ آج یوم آزادی ء صحافت ہے ۔ پیشہ ور تنظیموں کی طرف سے جلسے ، جلوسوں اور سیمینارز کا اہتمام کیا جائے گا جن میں متاثرہ کارکن صحافی بھی شریک ہوں گے ۔ اس موقع پر بڑے بڑے اعلانات ہوں گے ، گلا پھاڑ پھاڑ کر تقاریر ہوں گی اور صحافت اور اہل صحافت کی زبوں حالی کا ماتم کیا جائے گا ۔ تصاویر لی جائیں گی سیلفی بنائی جائیں گی اور پھر منتظمین فاتحانہ انداز میں ” پر امن طور پر منتشر ہو جائیں گے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مفاد پرستوں کے ” اتحاد ِ ثلاثہ “ کو توڑا نہیں جاتا صحافیوں کے استحصال کا یہ مکروہ عمل جاری رہے گا ۔ یہی وہ اتحا د ِ ثلاثہ ہے جو کارکن صحافیوں کو ان کے جائز اور قانونی حق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔