ضلعی عدلیہ، چیمبروں کے ”ملا“ اور پارلیمان

   ضلعی عدلیہ، چیمبروں کے ”ملا“ اور پارلیمان
    ضلعی عدلیہ، چیمبروں کے ”ملا“ اور پارلیمان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جج تیرا ہو یا میرا، نہیں صاحب فریاد تو پوری مینائے عدل سے ہے۔ ایوان اقتدار کے مکین متلاطم دریائے سیاست میں 26ویں آئینی ترمیم پر کھلکھلا اٹھے۔ سابقین عدلیہ کے کالے نامہ اعمال کے باعث یہ ترمیم بلا شبہ نوشتہ دیوار تھی۔ بدلنا ممکن، نہ استرداد درست۔ 19 ویں ترمیم سے عدالتی افسر اعلیٰ کو فیل بے زنجیر آزادی کیا ملی کہ۔۔۔۔۔۔۔؟ مولوی اپنے ہی مسلک کا ملا مسجد میں لانے پر بضد ہو تو اعتراض کیوں؟ کوئی ایک چیف جسٹس بتائیے جو اپنے چیمبر سے ہم نوالہ و "ہم پیالہ" نہ لایا ہو، ما سوائے جسٹس فائز عیسیٰ کے. سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے چھ درجن سے زائد ججوں میں ایک بھی سیشن جج سے جسٹس نہیں بنا۔ سندھ کے 40 میں سے صرف تین سیشن جج، جسٹس ہیں۔

جدا جب تک تیری زلفوں سے پیچ و خم نہیں ہوں گے

 ستم دنیا میں بڑھتے  ہی رہیں گے کم  نہیں  ہوں گے

 احباب میں سے کچھ 26 ویں ترمیم پر نوحہ کناں تو چند ایک رطب اللسان تھے۔ میں دونوں سے اختلاف کر گزرا: "مسئلے کی جڑ تلاش نہیں کرو گے تو ترمیم در ترمیم ہوگی۔ عدلیہ نام کا ادارہ آئین میں موجود ہے، قابضین بھی حاضر لیکن مثل سول و عسکری سروس ان کی تربیت کا کوئی ادارہ نہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ 28 سال گزار کر پارلیمان سے میرا یہی کہنا ہے:

ادھر   آؤ   تمہاری   زلف   ہم   آراستہ   کر   دیں 

 جو گیسو ہم سنواریں گے کبھی برہم نہیں ہوں گے"

احباب بضد ہو گئے کہ مثالوں سے واضح کرو۔ عرض کیا، شریعہ اکیڈمی موسسہ 1981 عدالتی تربیت کا پہلا ادارہ تھا جہاں ججوں، پراسیکیوٹروں وغیرہ  کی چار ماہ شریعہ تربیت ہوتی ہے۔ وکالت کی اپرنٹس شپ کرنا پڑی تو بار میں گزرے لمحات نے ہاتھ اٹھوا اٹھوا کر مجھ سے واویلا کروایا: "او میرے رازق! یہاں سے  رزق ہرگز نہ دیجیو"! شہزاد اقبال شام اللہ وہ کا مقرب بندہ ہے کہ چند ہی دن بعد  پروانہ تقرری مل گیا، الحمدللہ۔ 1991 میں مجھے ججوں وغیرہ کے اس کورس کا رابطہ افسر لگادیا گیا۔ رابطہ افسر یہاں سب کچھ ہوتا ہے۔ لیکچر کے لیے جسٹسوں، پروفیسروں اور علما وغیرہ سے رابطہ کرنا، ٹائم ٹیبل بنانا اور اندرون ملک دوروں پر لے جانا سب کام رابطہ افسر کرتا ہے۔ میں محض لیکچرر تھا، لہذا بیرون ممالک کے دورے پر پروفیسر امان اللہ گروپ لیڈر مقرر ہوئے. ساڑھے تین ماہ میں میں شرکا سے خوب واقف ہو چکا تھا۔ پروفیسر امان البتہ نو آموز الھڑ تھے۔ انہوں نے کوشش تو کی کہ دورہ بخوبی مکمل ہو جائے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن خلاصہ یہی ہے کہ ضلعی عدلیہ کو کلیتاً نئے خطوط  پر قائم کر کے اور مستحکم تربیتی حصار سے گزارے بغیر کسی بہتری کی کوئی توقع ہرگز نہ کی جائے۔

ہفتہ مصر میں گزار کر ہم نے سعودی عرب جانا تھا۔ صبح کی پرواز اور رمضان کے دن تھے۔ اعلان کیا کہ سحری کرتے ہی روانگی ہے، ہوٹل کا حساب بے باق کر لیا جائے۔ 28 شرکا، دو منتظم اور تین شرکا کی بیویاں ملا کر کل 33 لوگ تھے۔ ہوٹل سے حساب بے باق کرتے وقت آدھے شرکا قطار نہ بنانے پر بضد تھے۔ منت سماجت پر قطار بننے لگی تو سندھ کے ایک جج آگے تھے۔ پنجاب کے "مشہور" زمانہ سیشن جج نے سندھی جج کو دھکا دے کر پیچھے کر دیا کہ سیکرٹری لا سینیئر ہوتا ہے (بے نظیر + کلاشنکوف + شیخ رشید، باقی خود جان لیں) تمام سندھی شرکا اس پنجابی جج کے درپے ہو گئے۔ اب دیگر پنجابی تو نہیں لیکن پراسیکیوٹر میدان میں نکل آئے۔ مار دھاڑ  اور حیوانات کے ساتھ شجرہ نسب کا باہمی تبادلہ گروپ لیڈر کے اس اعلان پر بمشکل ختم ہوا: "بسیں تیار ہیں،فورا بیٹھیں "۔ تب معلوم ہوا، آدھے شرکا سرمہ، دنداسہ مسواک وغیرہ میں لگے ہوئے ہیں۔ پس حکم ہوا کہ شہزاد صاحب تیار لوگوں کو لے کر فوراً چل پڑیں باقیوں کو امان صاحب اگلی کسی پرواز میں لے آئیں گے۔ مصر میں ہلالی پرچم کی سربلندی کی یہ صرف ایک جھلک ہے۔

1981 میں اس کورس کا آغاز ہوا تو شرکا کو ہوٹروں کے ساتھ شاہانہ پروٹوکول دیا جاتا تھا، رابطہ عالم اسلامی انہیں شاہی محلات میں ٹھہراتا تھا۔ معززین کے 10 سالہ "حسن کارکردگی" سے متاثر ہو کر 1991 تک حالت یہ ہو گئی کہ ہمیں مکہ کے ایک زیر تعمیر ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ چھت پر دیگ پکتی تھی۔ کھانا ہو تو وہاں سے لے کر کھا لو، ورنہ کھصماں نوں کھاؤ۔ مدینہ پہنچاتے پہنچاتے سعودی رابطہ افسر نکو نک آ چکا تھا۔ اس نے یہ کہہ کر کمروں کی چابیاں مجھے تھما دیں: "پچھلے گروپ کے "حسن سلوک" سے ہوٹل والے رج گئے ہیں۔ مزید خدمت سے قاصر ہیں "۔ پروفیسر امان بیزار ہو کر دھم سے بیٹھ گئے۔ میں نے اعلان کیا کہ پہلے خواتین کو چابیاں دے کر اندراج کیا جائے گا، پھر مردوں کو پھر باقی لوگ!  یہ سنتے ہی سیشن جج صاحب نے مجھے بازاری لقب مرحمت فرما کر حکم دیا: "چاپی کڈ او کاکے". جبکہ ان کے اپنے تین ساتھیوں کی تھکی ہاری بیویاں میرے آگے کھڑی تھیں۔ عرض کیا: "جناب ان کا نمبر لکھ کر آپ کو چابی دیتا ہوں ".  موصوف نے مجھے ایک اور نسبتاً بوجھل "خطاب" سے سرفراز فرمایا تو پروفیسر امان لجاجت سے بولے: "جج صاحب ان تین بہنوں کے بعد آپ کو فوراً چابی ملے گی".

موصوف نے جب ایک ثقیل بازاری "خطاب" محترم پروفیسر پر اچھالا تو بدن میں چنگاریاں پھوٹنے لگیں۔ میں نے اسے اپنے دونوں بازوؤں میں بھرا، کہ آتش جوان تھا، اور دھاڑ لگائی: "ہے کوئی اللہ کا بندہ جو سامنے والی کھڑکی کھول دے"؟ ایک ستم ظریف نے چھٹی منزل پر واقع کھڑکی دوڑ کر کھول دی. پروفیسر امان نے مجھ پر ہر حربہ آزمایا لیکن بپھرے ہوؤں کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انصر خان مرحوم ہمارے شہر میں اے سی تھے تو والد صاحب کے دوست بن گئے۔ نیوی کے ایک نہایت نفیس افسر خالد جاوید بھی تھے جن کی مدد سے انصر صاحب نے میری گردن دبوچ کر کہا: "کاکے, میں تیری ٹانگیں چیر کر  تیرے باپ کے آگے رکھوں گا۔ اب بس کر" بس تو میں نے کر دیا لیکن اس شرط پر کہ: " پاکستان پہنچ کر بھلے برطرف کرا دینا لیکن اب میرا ہی حکم چلے گا". حکم یوں چلا کہ دو چین اسموکر ڈرائیوروں کے کمرے میں فرش پر گدا  لگوایا  اور جج صاحب کو سب سے آخر میں فرش پر سلایا۔

ضلعی عدلیہ کو مطلقاً نئے خطوط پر استوار کر کے سول وعسکری سروس جیسے دو سالہ تربیتی عمل سے گزارے بغیر کتنی ہی آئینی ترامیم کر لیں، ستم دنیا میں بڑھتے ہی رہیں گے کم نہیں ہوں گے۔ تو اے اصحاب پارلیمان:

 اگر بڑھتا رہا یوں ہی یہ سودائے ستم کاری

تمہی رسوا سر بازار ہو گے ہم نہیں ہوں گے

 پلے باندھ لیں کہ اپنی موجودہ شکل میں بار کے کسی وکیل کا عدلیہ میں کوئی کام نہیں. بار کے تربیت یافتہ معززین ہی نے لاہور میں ہسپتال پر حملہ کر کے درجنوں گاڑیاں جلا دی تھیں اور چار مریض بھی مار دیے تھے۔

مزید :

رائے -کالم -