ڈاکٹر وحید قریشی نے اسلم انصاری سے معذرت کیوں کی؟
ڈاکٹر اسلم انصاری کی وفات کے بعد ان کی شخصیت کے اسرار کھلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملتان میں کئی تقریبات ہو چکی ہیں، لاہور میں بھی ایجوکیشن کالج لوئر مال کیمپس میں ایک بھرپور تقریب ہوئی ہے تاہم میں یہاں ان کی زندگی کے ایک ایسے واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ایک ذہین، باصلاحیت اور محنتی طالب علم کے ساتھ کی گئی ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ واقعات جو اس کالم میں بیان کرنے جا رہا ہوں، ڈاکٹر اسلم انصاری کی زبان سے بھی کئی بار سننے کا موقع ملا اور ان کے سب سے زیادہ قریب رہنے والے اردو ادب کے استاد ڈاکٹر نجیب جمال بھی گاہے بہ گاہے ان کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا۔ وہ شعبے کے نامور ترین طالب علموں میں شامل تھے اور شاعری کے حوالے سے ان کا نام پوری ادبی دنیا میں گونج رہا تھا، حتیٰ کہ بھارت میں بھی انہیں ناصرکاظمی کے ساتھ ایک بڑے غزل گو شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جا رہا تھا۔ یہ 1962ء کی بات ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد اسلم انصاری نے اورینٹل کالج میں عارضی طور پر پڑھانا شروع کیا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر سیدعبداللہ، ڈاکٹر وقار عظیم، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی جیسے بڑے استاد اورینٹل کالج میں موجود تھے، اسی دوران اورینٹل کالج میں اردو لیکچرار کی ایک سیٹ خالی ہوئی، اب اس کے لئے دو مضبوط امیدوار تھے۔ ایک ڈاکٹر اسلم انصاری اور دوسرے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا۔ ٹیسٹ ہوا تو ڈاکٹر اسلم انصاری تھیوری میں ٹاپ کر گئے۔ اب مرحلہ مقالے کا تھا۔ تھیوری اور مقالے کے نمبر برابر تھے۔ مجھے ایک بار ڈاکٹر اسلم انصاری نے اس حوالے سے روداد سناتے ہوئے بتایا کہ مقالے کے محقق ڈاکٹر وحید قریشی تھے۔ جن کی رائے میرے بارے میں کچھ اچھی نہیں تھی۔ یہ شعبے کی سیاست کی وجہ سے تھی کیونکہ ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر وقار عظیم مجھے بڑی اہمیت دیتے تھے جس دن نتیجہ آؤٹ ہونا تھا، اس روز خلاف معمول تاخیر ہوتی رہی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اسی دوران ایک بار ڈاکٹر وقار عظیم باہر آئے تو وہ دوسرے امیدواروں کی طرح دوڑ کر ان کی طرف لپکے تاکہ نتیجہ معلوم کر سکیں، مگر انہوں نے کہا ابھی انتظار کرو۔ خیر کافی تاخیر سے جب نتیجہ سامنے آیا تو ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کو لیکچرر منتخب کرلیا گیا تھا۔ حالانکہ ان کے تھیوری میں نمبر مجھ سے کم تھے۔ مقالے میں ڈاکٹروحید قریشی نے اتنا زیادہ فرق ڈال دیا کہ یوں لگتا تھا میں نے مقالے میں کچھ لکھا ہی نہیں۔ یہ واقعہ ہی دراصل ان کی لاہور سے ملتان کی طرف مراجعت کا باعث بنا۔ وہ خاصے بددل ہوئے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب ناصر کاظمی اور احمد مشتاق نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی۔ ناصرکاظمی نے تو ان کے ملتان جانے کے بعد ایک غزل بھی لکھی جو ان کے نام ممنون کی جس کا مطلع ہے:
نئے کپڑے بدل کے جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جاؤں کس کے لئے
جو لوگ یہ کہتے ہیں ڈاکٹر اسلم انصاری کو زندگی بھر یہ قلق رہا وہ لاہور سیٹل نہیں ہو سکے، وہ غلط کہتے ہیں، اسلم انصاری اپنے ذاتی فیصلے کے نتیجے میں ملتان واپس آئے تھے اور پھر انہوں نے زندگی بھر یہ نہیں کہا لاہور ہوتے تو بڑی شخصیت بن جاتے البتہ انہیں اس بات کا دکھ ضرور تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی، وہ میرٹ پر نمبرون تھے مگر گروپ بندی اور شعبے کی سیاست کے باعث انہیں اورینٹل کالج میں منتخب ہونے سے محروم رکھا گیا۔ وہ ملتان آئے تو محکمہ تعلیم میں ان کی سلیکشن ہو گئی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ 1975ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی قائم ہوئی تو شعبہ اردو میں ڈیپوٹیشن پر اساتذہ لئے گئے جن میں زیادہ تر کا تعلق گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے تھا۔ یونیورسٹی میں اساتذہ کی مستقل بھرتیاں شروع ہوئیں تو یہاں بھی کچھ لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ ڈاکٹر اسلم انصاری ہی سے تھا کہ وہ یونیورسٹی میں آ جائیں گے اور پھر اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے چھا جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ڈیپوٹیشن پر پنجاب یونیورسٹی سے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی شعبہ اردو میں آ گئے۔ اب ڈاکٹر اسلم انصاری کے لئے یونیورسٹی میں جانے کا راستہ بالکل ہی بند ہو گیا کیونکہ پرانی تلخ یادیں موجود تھیں۔ تاہم ڈاکٹر اسلم انصاری نے کبھی اسے اپنا دکھ نہین بنایا، وہ کالج میں پڑھاتے رہے اور شاعری، تنقید، تحقیق، اقبالیات اور سرائیکی و انگریزی تراجم پر کام کرتے رہے۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ان جیسا کام کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ ان کی کتابیں ایک جہانِ حیرت لئے ہوئے ہیں اور پڑھنے والا حیران ہوتا ہے ایک شخص بڑے اداروں جیسا کام کیسے کر سکتا ہے۔ خاص طور پر اقبالیات پر ان کی چھ کتابیں ان سینکڑوں کتابوں پر بھاری ہیں جو علامہ اقبال پر لکھی گئیں۔ ان کتابوں میں اقبالیت کی جو تحقیق و تفسیر ملتی ہے، وہ صحیح معنوں میں فکر اقبال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ناانصافی کرنے والے یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ان سے زیادتی ہوئی۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے جب علامہ اقبال کے فکر و فلسفے پر اپنی پہلی کتاب ”اقبال عہد آفریں“ لکھی تو اس نے سب کو چونکا دیا اقبال پر ایسی کتاب سب کے لئے ایک ناقابلِ یقین تخلیق تھی۔ فکر اقبال کے نئے گوشے اور ان کے فلسفے کی نئی جہتیں ڈاکٹر اسلم انصاری نے اس کتاب میں اس طرح بیان کی ہیں کہ اہل فکر و نظر اقبالیات کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جن دنوں یہ کتاب چھپی ڈاکٹر وحید قریشی بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان آئے۔ انہوں نے فیض احمد فیض پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے والے ڈاکٹر صلاح الدین حیدر سے وائیوالینا تھا۔ اسی شعبے میں ڈاکٹر نجیب جمال بھی پڑھاتے تھے۔ وائیوے کے بعد ڈاکٹر وحید قریشی نے اس خواہش کا اظہار کیا وہ ڈاکٹر اسلم انصاری سے ملنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال انہیں ڈاکٹر اسلم انصاری کے گھر لے گئے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ان کی کتاب ”اقبال عہد آفریں“ کی دل کھول کر تعریف کی اور پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ہم نے آپ سے بڑی زیادتی کی،اورینٹل کالج کے لئے منتخب نہیں کیا، یہ سن کر ڈاکٹر اسلم انصاری نے کہا آپ میرے استاد ہیں، مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں، میں ملتان کی زرخیز دھرتی پر موجود ہوں جہاں میری صلاحیتوں کا اظہار زیادہ بہتر طریقے سے ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کی زندگی ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے، جن کا اظہار گاہے بہ گاہے ان کالموں میں کیا جاتا رہے گا تاکہ ان کا حق ادا ہو سکے۔