تنقید ضروری، لیکن اصلاح کے لئے، مہنگائی؟

  تنقید ضروری، لیکن اصلاح کے لئے، مہنگائی؟
  تنقید ضروری، لیکن اصلاح کے لئے، مہنگائی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شاعر نے کہا ”اچھا ہے، دل کے پاس رہے، پاسبان عقل، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے گا“ آج میرا بھی دل چاہتا ہے کہ پاسبان سے عرض کروں کہ مجھے اکیلا رہنے دو، لیکن حالات ہیں کہ پاسبان ہی کی بات بہتر نظر آتی، لیکن ضروری تو نہیں کہ جو پاسبان عقل کا موقف ہو، وہی میرا دل بھی سوچے، بہرحال اس سب کے باوجود کہ دل دیوانہ مانتا نہیں، مجھے اپنی فیڈریشن کے ترتیب دیئے ضابطہ اخلاق کے اندر رہنا ہوگا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تنقید برائے مخالفت نہیں، برائے اصلاح ہو، مجھے صدر، وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے ساتھ ساتھ اپنے عوامی مددگار اداروں سے بھی یہ توقع ہے کہ میری آج کی ان معروضات کو اطلاع برائے اصلاح لیا جائے اسے تنقید سے بھی الگ ہی رکھا جائے۔

عرض یہ کرنا ہے کہ وزیراعظم اور وزراء سے صوبائی وزیراعلیٰ تک حتیٰ کہ سٹیٹ بینک گورنر بھی اس میں شامل ہیں، یہ سب محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر شادیانے بجا رہے ہیں کہ مہنگائی بہت کم ہو گئی ہے اور اب 6.9فیصد کی سطح پر آ چکی ہے جو مزید بھی کم ہو گی۔ جہاں تک حکومت اور اس کے سربراہان کے اس بیان کا تعلق ہے کہ افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی، اسے کسی عذر کے بغیر تسلیم کرتا ہوں اور کرلینا چاہیے کہ اس کا تعلق سٹیٹ بینک کے تجزیہ سے ہے جس کے لئے جواب دہی لازم ہے کہ اگر فرق ہو اثرات عالمی نوعیت کے ہوتے ہیں، جہاں تک محکمہ شماریات کی طرف سے جاری رپورٹ پر اظہار مسرت کیا گیا اور کہا جا رہا ہے تو حقائق سے بالکل مختلف ہے۔ محکمہ شماریات کی طرف سے ہفتہ وار، مہینہ اور سال بعد جو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں، ان کا زمینی حقائق سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ سب مارکیٹ کاجائزہ لئے بغیر میز پر مرتب کی جاتی ہیں، ورنہ برسرزمین حقیقت بہت ہی مختلف ہے۔

معذرت سے عرض کروں گا کہ ہمارے ملک میں فنکاروں کی کمی نہیں، ان کے لئے کارکردگی بہتر بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، چاہے آج کی جاری رپورٹ سابقہ رپورٹوں ہی سے مستعار لی گئی ہو۔ ہمارے ایک دوست اور مہربان محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ہو گئے اس سے قبل وہ اپنی ماتحت حیثیت میں بھی محنتی تھے۔ ایک بار ازراہ تفنن جب گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ سکھی ہیں انہوں نے مختلف حالات و واقعات کے بعد اپنے وزیراعلیٰ اور متعلقہ تقاریر کے نمونے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جب کبھی ایسا موقع آئے کہ دوست کو جلدی ہو تو وہ اسی مناسبت سے سابقہ بیان کو نکال لیتے اور اسے پڑھنے کے بعد تعارفی پیرا گراف کو تبدیل کرکے بھیج دیتے تو مذکورہ بیان شائع بھی ہو جاتااور صاحب مطمئن بھی رہتے، شاید آج کل بھی ایسا ہو رہا ہو، اگرچہ اب الیکٹرونک میڈیاکے باعث شاید یہ سلسلہ موقوف ہو چکا ہو، بہرحال بات ہو رہی تھی شعبہ شماریات کی کہ جو بھی رپورٹ ہفتہ وار جاری کی جاتی ہے اس کے لئے سرکاری فارمولا ہی اختیار کیاجاتا ہے کہ پرانا پریس نوٹ معمولی تبدیلی کے بعد جاری کر دیا جاتا ہے ورنہ زمینی حقائق بہت ہی مختلف ہیں۔

پورے طبقہ اقتدار کو یہ باور ہی نہیں، یقین دلا دیا گیا ہے کہ مہنگائی بہت کم ہوئی اور مستقبل کے لئے مزید اچھی خبریں ملیں گی۔ لیکن بازار میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا، جیسا پریس نوٹ میں ہوتا ہے اس کی ایک جھلک میں دکھا دیتا ہوں، ابھی ایک روز قبل میں خود علامہ اقبال ٹاؤن والی منڈی گیا سبزی لینا تھی اس لئے گاڑی بند کرکے نیچے اترا، منڈی کے دکاندار (پھڑیئے) سے سودا خرید کرگھومنے پھرنے کی بجائے ایک ہی دکاندار سے خریداری آسان ہوتی ہے، چنانچہ سبزی کے نرخ ملاحظہ فرما لیں، مٹر چار سو روپے،ٹینڈے چار سو روپے، کریلے تین سو روپے،پیاز 160روپے اور ٹماٹر بھی ایک سو ساٹھ روپے فی کلو ملے، اگر اسے ہی نوفیصد شرح کی کمی قرار دیا گیا ہے تو پھر محکمہ شماریات کی داد دینے کو جی چاہتا ہے، جس نے مہنگائی کی شرح کو بھی الفاظ کا گورکھ دھندا بنا دیا۔

اب ذرا فروٹ کا ملاحظہ فرمائیں، سیب (چاٹ والا) چار سو روپے فی کلو، آڑو تین سو روپے فی کلو ملتے ہیں اور یوں ہر شے کی قیمت اسی تناسب سے ہے، کیلا مقامی مارکیٹ میں بھاری تعداد میں آیا ہے، اچھا کیلا دو سو روپے فی درجن بک رہا ہے اور مارکیٹ سے دو سو اڑتیس روپے کا درجن ملتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پانچویں بار کمی ہوئی ہے، رکشاء، ویگن اور دیگر ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کے اثرات الیکٹرونک اور دیگر مارکیٹوں پر پڑے ہیں، البتہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی بعض پروڈکٹس کے نرخوں میں مصنوعی کمی کی ہے، صارفین کو اور کسی طرف سے رعائت نہیں ملی۔ بجلی اور گیس تو یوں بھی بساط سے باہر ہیں، اس لئے محکمہ شماریات کے اعداد و شمار پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتے اور مارکیٹ کا جائزہ لے کر بات کرنا چاہتے۔

اب ذرا صوبائی بات بھی کرلی جائے وزیراعلیٰ اپنی ٹیم کے ساتھ واقعی انتھک محنت کررہی ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی طرف ان کی بہت توجہ ہے، چنانچہ وہ مسلسل اجلاس منعقد کرکے اور رپورٹیں طلب کرکے مفید منصوبوں کا اعلان کر رہی ہیں تاہم یہاں بھی زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماتحت محکموں کی توجہ بھی شہرت کی طرف ہے اور وہ وزیراعلیٰ کی توجہ دیکھ کرانہی کاموں کی تشہیر سے کارکردگی بتا رہے ہیں ورنہ برسرزمین حقائق مختلف ہیں صرف ایک محکمہ کی بات کرتے ہیں پی ایچ اے ایک ایسا ادارہ ہے جس کی ذمہ داری شہر کی خوبصورتی اور اسے سرسبز بنانا ہے، خوبصورتی کے حوالے سے کارکردگی اچھی ہے کہ شہر کی مرکزی کینال کو روشنیوں سے سجا دیا گیا ہے کہ اس میں اخراجات ہوتے  ہیں اور خرچ کرنا مفید رہتا ہے لیکن یہ محکمہ شہر کو سروسبز بنانے کی جگہ اسے گنجا کر رہا ہے، شجر کاری کاغذات میں ہوئی ہے۔حالیہ بارشوں میں علاقائی پارکیں برباد ہو گئیں، سبزہ کرکٹ کھیلنے والوں نے ختم کر دیا، بنچ ٹوٹ گئے، دیواریں گر گئیں اور عملہ جنگلے اٹھا کر لے گیا، اب کام کے لئے موسم بہتر ہو گیا لیکن کسی جگہ شروع نہیں کیا گیا۔ بھینسیں سبزہ زاروں میں جگالی کرتی ہیں، کوئی روکنے والا نہیں، گرین بیلٹ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، میں اس سے کہیں زیادہ تفصیل دیگر شعبوں کی بھی بتا سکتا ہوں لیکن اس پر اکتفا کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ جانچ پڑتال کا حقیقی انتظام کیا جائے تو ”بھید کھل جائے گا“۔

مزید :

رائے -کالم -