اقبال لائبریری سیالکوٹ پر آسیب کا سایہ

سیالکوٹ میں قائم علامہ اقبالؒ کے نام سے منسوب لائبریری تقریباً بیس پچیس سال سے مسائل کا شکار چلی آ رہی ہے۔ یہ گورنمنٹ اقبال لائبریری60سال پہلے منٹگمری لائبریری کہلاتی تھی اور اپنے دور طالب علمی میں فیض احمد فیض بھی اس لائبریری سے خوب استفادہ کرتے تھے۔جب مَیں اقبال لائبریری کی ”پریشان حالی“ دیکھتا ہوں تو مجھے فیض احمد فیض کا ہی ایک شعر یاد آ جاتا ہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
اندازہ کریں کہ علامہ اقبال لائبریری 22 سال سے باقاعدہ لائبریرین کے بغیر ہی چلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ لائبریری چونکہ ضلعی محکمہ تعلیم کے زیر انتظام ہے،اس لئے لائبریری کے گلشن کا کاروبار چلانے کے لئے ایک سول ٹیچر کو ذمہ داری سونپ دی گئی۔وہ سکول ٹیچر اپنی ہمت، بساط اور توفیق کے مطابق لائبریری کے امور سرانجام دیتا رہا۔اس کی محنت،اخلاص اور لائبریری کے کام میں دلچسپی بھی قابل ِ ستائش تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے لائبریری کے کام کو بڑی حد تک سیکھ بھی لیا، لیکن گلوں میں رنگ بھرنے کے لئے بادِ نو بہار کے ساتھ ساتھ ماہر باغبان کا ہونا بھی ضروری ہے۔ محکمہ تعلیم ضلع سیالکوٹ کو یہ توفیق ہی نہ ہوئی کہ وہ تاریخی اقبال لائبریری کے لئے بیس سال میں بھی کسی باقاعدہ لائبریرین کا انتخاب کر سکے۔
لائبریرین تو شاید بڑا مسئلہ تھا۔اقبال لائبریری کو دو دہائیاں (20سال) گزر جانے کے باوجود ایک خاکروب، ایک مالی اور ایک چوکیدار بھی میسر نہ آ سکا۔اب ذرا تصور کریں جس لائبریری میں 35ہزار کے قریب کتب ہوں۔اخبارات اور رسائل ان کتب کے علاوہ ہیں۔لائبریری میں روزانہ ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو کے قریب لوگ کتابوں اور اخبارات و رسائل سے استفادے کے لئے ضرور آتے ہیں۔یہ لائبریری20سال سے ایک خاکروب تک سے بھی محروم ہو۔کیا محکمہ تعلیم کے ذمہ داران بتا سکتے ہیں کہ ان کے دفاتر بھی لائبریری کی طرح خاکروب کی سہولت سے محروم ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال لائبریری کے تین بڑے ہال، ریکارڈ روم جہاں ایک لاکھ کے قریب پرانے اخبارات اور رسائل محفوظ ہیں، لائبریری کا صحن اور پھر بیت الخلاء تک کی صفائی پچھلے20 سال سے کون کر رہا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہی سکول ٹیچر اور لائبریری کا ایک نائب قاصد جو اقبال لائبریری کے باقی سب امور سرانجام دیتے تھے، لائبریری کے کونے کونے اور بیت الخلا تک کی صفائی بھی خود ہی کرتے تھے۔لائبریری کے لئے مالی کی ذمہ داریاں بھی یہی دونوں افراد ادا کرتے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اِن دونوں مستحق ستائش اور قابل ِ تعریف افراد سکول ٹیچر عامر خان اور نائب قاصد ایوب خان کی اقبال لائبریری کے لئے وہ خدمات جو اُن پر واجب بھی نہیں تھیں،سرانجام دینے کا صلہ کسی بہت بڑے ایوارڈ کی صورت میں دیا جاتا،کیونکہ پورے ضلع سیالکوٹ میں کسی بھی سرکاری ادارے میں یہ مثال نہیں مل سکتی کہ جو ادارے کا انچارج ہے وہی ادارے کا جاروب کش بھی ہے۔آپ کو حیرت ہو گی کہ جس سکول ٹیچر نے 22سال تک اقبال لائبریری کی خدمات ایک مقدس فرض کی تکمیل سمجھ کر سرانجام دیں،اُس کو سکول میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کو بائیس سال کا لائبریری کے کام کا عملی تجربہ ہو چکا تھا،اُس کے تجربے اور خدمات سے لائبریری کو محروم کر دیا گیا ہے اور وہ بھی کسی آداب و تہذیب کے بغیر یعنی اقبال لائبریری کے لئے اس کی خدمات کو سراہنے کی بھی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذکورہ سکول ٹیچر نے دِل برداشتہ ہو کر اپنی باقی ماندہ دس سال کی ملازمت بھی قربان کر دی اور کسی سے شکوہ کیے بغیر ریٹائرمنٹ قبول کر لی۔اعلیٰ افسروں میں جب قدر کرنے والے اور کسی کے اچھے کاموں کی عزت کرنے والے لوگ موجود نہیں رہتے تو پھر ماتحت سٹاف میں مایوسی پھیلنا ایک قدرتی امر ہے۔
چند ماہ پہلے ایک کلرک کی سکول سے اقبال لائبریری میں ٹرانسفر کی گئی تھی۔ اُس نے بھی جب لائبریری کے اندر پائی جانے والی مایوس کن صورتِ حال کو دیکھا تو قبل از وقت ریٹائرمنٹ میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اقبال لائبریری کو سات آٹھ ماہ پہلے ایک لائبریرین میسر آ گیا تھا،مگر وہ بھی اپنی ریٹائرمنٹ کاسوچ رہا ہے باوجود اس کے کہ ابھی اس کی ملازمت کے پانچ سال باقی ہیں۔معلوم نہیں،اقبال لائبریری سیالکوٹ کو کس کی بُری نظر لگ گئی ہے۔ اقبال لائبریری میں صبح اور شام دو شفٹ میں کام ہو رہا ہے،مگر لائبریری کو ایک شفٹ کا سٹاف بھی میسر نہیں ہے۔ لائبریرین کو بھی گزشتہ سات ماہ سے یہی شکایت ہے کہ اُس کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود مطلوبہ سٹاف اقبال لائبریری کو مہیا نہیں کیا جا رہا، جس وجہ سے لائبریری عملی طور پر عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔لائبریری میں کمپیوٹر اور کمپیوٹر آپریٹر کا وجود تک نہیں ہے۔کیا یہ عجوبہ نہیں ہے کہ گورنمنٹ کی اتنی بڑی لائبریری میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایک سہولت بھی موجود نہیں۔
اقبال لائبریری کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ایک مکمل کمپیوٹر لیب کا ہونا ضروری ہے۔اس کے علاوہ لائبریری انچارج کو کم از کم دس افراد پر مشتمل سٹاف کی معاونت میسر آنی چاہئے،جن کو دو شفٹوں میں تقسیم کر کے احسن طور پر لائبریری کا کام لیا جا سکتا ہے،مگر ضلعی محکمہ تعلیم کے سربراہ جس کسی کو سکول سے لائبریری میں تبدیل کرتے ہیں وہ لائبریری میں آنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہوتا اور جو بڑے شوق اور لگن سے لائبریری میں رہنا چاہتا ہے،اُسے سکول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔اس بدانتظامی اور بدتدبیری کی وجہ سے اقبال لائبریری کا ماحول آسیب زدہ ہو چکا ہے۔ جن اور بھوت خود تو دکھائی نہیں دیتے، لیکن ان کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے وہ سب کو نظر ضرور آ جاتا ہے۔
سنتے میں آیا ہے کہ سیالکوٹ کے موجودہ ڈپٹی کمشنر اقبال لائبریری کے لئے بہت کچھ کرنے کا عزم و ارادہ رکھتے تھے،لیکن ان کو اقبال لائبریری کے اصل مسائل سے آگاہی نہیں۔اس لائبریری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پورا سٹاف مہیا کیا جائے اور کمپیوٹرز کی فراہمی تو سٹاف سے بھی زیادہ اہم ہے،کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی سہولت سے سٹاف کی کمی کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ کمپیوٹر آپ کو ایک سیکنڈ میں بتا سکتا ہے کہ لائبریری میں کون کون سی کتب موجود ہیں اور کون سی کتاب کس الماری کے کس خانے میں رکھی گئی ہے۔کمپیوٹر کی سہولت کے بغیر35ہزار کتب میں سے کوئی کتاب تلاش کرنا مشکل ہی نہیں،بلکہ ناممکن ہے۔ فی زمانہ کمپیوٹر کے بغیر لائبریری ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔ کتابوں کے جنگل کو اگر ایک چمنستان میں تبدیل کرنا ہو تو یہ کمپیوٹر کے بغیر ممکن ہی نہیں اور یہ آسان سی بات تو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی سیالکوٹ کے سربراہ کو بھی معلوم ہو گی۔
آخر میں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے اقبال لائبریری کا اچانک دورہ کیا تو بغیر سوچے سمجھے یہ حکم جاری کر دیا کہ لائبریری اب چھ بجے صبح کھلے گی۔شاید ایسا مضحکہ خیز حکم پورے پنجاب میں کسی بھی ڈپٹی کمشنر نے جاری نہیں کیا ہو گا۔ڈپٹی کمشنر کو تو یہ اختیار بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنے دفتر کے اوقات اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر سکے۔یہ اختیار حکومت پنجاب کا ہے جو تمام اضلاع کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ ویسے بھی اقبال لائبریری کا یہ مسئلہ ہی نہیں تھا کہ اس کے کھلنے کا وقت صبح ساڑھے آٹھ کے بجائے چھ بجے صبح کر دیا جائے۔اقبال لائبریری کے اصل مسائل اور دُکھ تو کچھ اور ہیں،مگر اُن مسائل کو حل نہیں کیا جاتا۔جب لائبریری کا سٹاف ہی مکمل نہیں ہو گا تو اس کے اوقات میں اضافہ تو ایک فضول سی بات ہے۔ بہتر ہوتا کہ ڈپٹی کمشنر، پنجاب حکومت سے اجازت لے کر پہلے ڈی سی آفس کے اوقاتِ کار تبدیل کر کے تجربہ کر لیتے کہ چھ بجے صبح دفاتر میں کام کا آغاز ممکن ہے بھی یا نہیں۔
کسی بھی نئے حکم نامہ سے پہلے مجاز افسر کو اپنے دائرہ اختیار کا علم ضرور ہونا چاہئے اور کوئی کام اگر بہتر ہے تو پھر اُس کی مثال بھی پہلے خود قائم کرنی چاہئے۔ڈی سی سیالکوٹ نے اقبال لائبریری کی ”بہتری“ کے لئے ایک اور ہدایت نامہ بھی جاری کیا ہے جو میرے لئے تو ناقابل ِ فہم ہے۔اقبال لائبریری کے انچارج کے میز کے سامنے مہمانوں کے لیے رکھی گئی کرسیوں کی تعداد چار یا پانچ ہو گی۔حکم ِ حاکم یہ ہے کہ انچارج لائبریری کی میز کے سامنے صرف ایک ہی کرسی رکھی جائے، جو پہلے آئے اس کرسی پر براجمان ہو جائے،باقی لوگ کھڑے رہیں گے اور اکیلی کرسی پر بیٹھنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کریں گے۔لائبریری میں آنے والوں کی عزت کرنے کا یہ دِل پسند انداز بھی خوب ہے۔میرا کبھی موجودہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر جانے کا اتفاق نہیں ہُوا،شاید وہاں بھی مہمانوں کی پذیرائی اسی طرح کی جاتی ہو۔ اکبر الٰہ آبادی کہاں یاد آ گئے
نہ اِف کیجیے اور نہ ہٹ کیجیے
جو صاحب کہے اسے جھٹ کیجیے
اقبال لائبریری کے انچارج کو ڈی سی سیالکوٹ کے اگلے حکم کا انتظار کرنا چاہئے۔ وہ حکم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال لائبریری میں تمام کرسیاں اُٹھوا دی جائیں۔کتابوں کے احترام میں سب لوگ کھڑے رہیں گے۔حسرت موہانی کا یہ شعر کسے یاد نہیں ہو گا
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن ِ کرشمہ ساز کرے