بجلی کے بل یا موت کا پروانہ
مہینہ گزرتے ہی ایک آفت جو سر پر بجلی کے بل کی صورت گرتی ہے اس سے اگر کوئی محفوظ ہے تو وہ ہیں واپڈا ملازمین اور افسران بالا ۔۔۔باقی غریب مزدور اور محنت کش تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے۔ جن کی تنخواہیں زیادہ ہیں ان کے بل بھی فری ہیں اور جو پہلے ہی حالات کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں ان کو ٹیکس کے ساتھ بجلی کےبلوں کے بوجھ تلے اس قدر دبا دیا جاتا ہے کہ وہ اٹھنے کے قابل نہیں رہتے ، نا جانے کون کونسے ٹیکسس ہیں جو بجلی کے بلوں میں ایڈ کر دئیے جاتے ہیں۔ آج کا پاکستان جس مقام پر پہنچ چکا ہے وہاں ہر طرف پریشانی کا عالم ہے۔ بجلی کے بلوں نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ، بل دیکھ کر گمان ہوتا ہے یہ بجلی کے بل نہیں موت کا پروانہ ہیں۔
ایک عام آدمی ماہانہ چالیس سے پچاس ہزار کماتا ہے ، بات عام آدمی کی ہو رہی ہے جسے ہم لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں ، آج سے چندسال پہلے وہ انہی پیسوں میں ایک خوشحال زندگی گزارتا تھا ، بچوں کی فیس، گھر کا خرچ اور پیٹرول ، اپنے تین عدد بچوں کے ساتھ سکون سے جی رہا تھا لیکن آج یہی مڈل کلاس مقروض ہو چکا ہے اور نوبت خودکشی تک پہنچ چکی، بجلی کے بل نے اسے اس قدر مجبور کیا کہ جولائی کا بل اس نے گھر کا سامان بیچ کر دیا اور اگست کا بل اس سے بھی زیادہ آگیا۔ چالیس ہزارسیلری میں ساٹھ ہزار بل کہاں سے ادا کرنا ہے؟؟؟ یہ سوالیہ نشان ہے حکومت پاکستان کے لیے۔
ایک غریب محنت کش چار بچیوں کا باپ اٹھارہ ہزار میں گھر کا خرچ بھی پورا نہیں کر پاتا ایسے میں بجلی کا بل اگر پچاس ہزار سے بھی زیادہ آ جائے تو وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ کہاں جائے؟ اس بزرگ کی کام کرنے کی عمر نہیں ہے لیکن اولاد کی خاطر وہ در بدر ہے محنت مزدوری کر کے اپنی بچیوں کو پال رہا ہے صرف اس امید پر کہ ان کی شادی کر سکے لیکن حالات اس کو کوئی اور ہی رخ دکھا رہے ہیں ایک مجبور غریب حالات کا مارا ہوا انسان خودکشی بھی نہیں کر سکتا ۔ بس یہی سوچ کر کہ اس کے بعد اس کی بچیوں کا کیا بنے گا!!
یہ کہانی ہر اس پاکستانی کی کہانی ہے جو حالات کے ساتھ لڑتے لڑتے آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ موت اس کو زندگی سے آسان لگ رہی ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے پہلے صرف ایک طبقہ اس چکی میں پستا تھا اب صرف ایک طبقہ سکون میں ہے اور وہ ہے حکومت اور ایلیٹ کلاس۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس اب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ، کرائے کے گھروں میں رہنے والے یہ سوچ کر پریشان ہیں کرایہ دیں، سکول کی فیسیں ادا کریں، گروسری لے کر آئیں بجلی کا بل ادا کریں، یا پھر کچھ کھا کر مر جائیں۔
ایک مزدور جو دن بھر کے کام کے عوض ایک ہزار مزدوری لیتا ہے ، اور گھر میں سات سے آٹھ افراد کھانے والے ہوں او رکبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں ملتا ایسے میں وہ بجلی کا بل کہاں سے ادا کرے گا؟ ایک ریڑھی لگانے والا اگر دن کا پانچ ، چھ سو کما رہا ہے ایسے میں وہ بل کہاں سے ادا کر ے گا؟ کچھ لوگوں نے تو حالات سے تنگ آکر موت کو گلے لگانا زیادہ بہتر سمجھا، ایسا ہی ایک محنت کش نوجوان بجلی کے بل ادا نہ کر سکا اور گلے میں پھندہ لگا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔ ایک ماہ اپنی بائیک بیچ کر بل ادا کیا اگلے ماہ بل اس سے کہیں زیادہ آگیا ایسے میں خودکشی ہی واحد حل نظر آیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ایسا چلے گا ۔ ہمیشہ غریب ہی کیوں اس چکی میں پستا ہے، آج عوام سڑکوں پر نکل کر حکومت سے سوال کر رہے ہیں۔ ہر آزمائش غریب کے حصے میں ہی کیوں آتی ہے؟ غریب آدمی جن کے پاس ملازمت کرتے ہیں ان کی اتنی بھی اوقات نہیں کہ کم سے کم ان کی تنخواہ ہی اتنی کر دیں کہ وہ سکون سے گزر بسر کر سکیں، آخر ان غریب ملازموں کی ہی بدولت یہ لوگ عروج کی منزلیں طے کرتے ہیں تو کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں