مفت کے مسافر اس وقت تک چھپے رہتے جب تک ”خطرہ“ نہ ٹل جاتالیکن ٹی ٹی بابو کہیں نہ کہیں سے تلاش کر کے کسی چوزے کی طرح دبوچ لاتا

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:88
ٹی ٹی بابو کی چیرہ دستیوں سے بچنے کا ایک اور آسان طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مفت کے مسافر گیلری کے ذریعے اگلے یا پچھلے ڈبے میں چلے جاتے ہیں اور اس وقت تک وہیں چھپے رہتے ہیں جب تک ان کو یقین نہیں ہو جاتا کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔پچھلے وقتوں میں جب دوسرے ڈبوں میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا تو یہ ٹی ٹی بابو انھیں کہیں نہ کہیں سے تلاش کر کے کسی چوزے کی طرح اْن کی گردن ناپ کر باہر لے آتا تھا۔ ٹکٹ چیکر کے پاس بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں۔ اس کی پہلی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ اگر کسی مسافر کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو اسے شک کا فائدہ دے کر وہیں گاڑی کے اندر ہی ٹکٹ جاری کردے۔تاہم اگر کوئی بحث مباحثہ کرنے پر تْل جائے تو یہ اپنے تفویض کیے گئے قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایسے مسافر سے اس اسٹیشن سے، جہاں سے یہ گاڑی روانہ ہوئی تھی، اگلے آنے والے اسٹیشن تک کا کرایہ وصول کرتا ہے۔ اب وہ ملزم لاکھ قسمیں کھائے کہ وہ تو پچھلے اسٹیشن سے سوار ہواتھا، لیکن وہ قانونی طور پر یہ ثابت نہیں کرسکتا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹکٹ کی قیمت کے علاوہ اس پر بھاری جرمانہ بھی عائد کر دیا جاتا ہے۔ اوراگر کوئی مسافرٹکٹ بھی نہ دکھا سکے، کج بحثی کرے اور اس کے پاس کرایہ ادا کرنے کے لیے رقم بھی نہ ہو تو ٹی ٹی بابو اگلے اسٹیشن پر اسے ریلوے پولیس کے اہلکار کے حوالے کردیتا ہے۔
وہ ہر وقت ڈبہ ڈبہ گھوم پھرکر ٹکٹ چیک کرتا پھرتا ہے۔ اور جب یہ کام مکمل ہوجاتا ہے تو وہیں کہیں کسی خالی نشست پر بیٹھ کر دو گھڑی آنکھ بھی لگا لیتا ہے۔ جب سے سپر ایکسپریس گاڑیاں چلی ہیں تو بسا اوقات گاڑی ایک اسٹیشن سے دوسرے تک پہنچنے کے لیے چار پانچ گھنٹے مسلسل دوڑتی رہتی ہے اس لیے وہ سکون سے بیٹھا اپنا حساب کتاب سیدھا کرتا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ جن نشستوں کی پیشگی بکنگ ہو چکی ہوتی ہے، وہاں سے وہ غیر متعلقہ لوگوں کو اٹھا کر مستنند مسافروں کو ان کا قبضہ دلواتا ہے۔ ویسے تو گاڑی کا منتظم گارڈ ہی ہوتا ہے تاہم ٹکٹ چیکر چھوٹی موٹی شکایتوں کا ازالہ بھی کر دیتا ہے۔ رات کے وقت گاڑی میں غیر ضروری روشنیوں اور دروازوں وغیرہ کو مقفل رکھنا بھی اس کی ہی ذمہ داری تصور ہوتی ہے۔
ریلوے پولیس
ہر مسافر اور مال گاڑی کے ساتھ ریلوے پولیس کے کچھ اہلکار بھی سفر کرتے ہیں تاہم ان لوگوں کا براہ راست گاڑی کے تکنیکی یا انتظامی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا اور ان کی ذمہ داری محض گاڑی اور اس کے مسافروں کی حفاظت اور سلامتی تک ہی محدود ہوتی ہے۔ یہ باقاعدہ ریلوے پولیس کے باوردی عہدے دار ہوتے ہیں اور ان کے پاس ضروری اسلحہ بھی ہوتا ہے۔بسا اوقات کسی ڈبے میں مسافروں کے بیچ کوئی لڑائی جھگڑا ہو جائے اور نقصِ امن کا خطرہ ہو یا ڈاکے کی نیت سے کچھ لوگ اندر ڈبوں میں گھس کر لوٹ مار شروع کر دیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ یہ وہاں پہنچ کر حالات کو سنبھالیں۔
ان کے لیے گاڑی کے درمیان ایک چھوٹا سا ڈبہ مخصوص ہوتا ہے، اس کے علاوہ جہاں ان کا دل چاہتا ہے بیٹھ جاتے ہیں۔ گاڑی کے کسی اسٹیشن پر رکتے ہی ان میں سے کچھ اہلکار نیچے اتر آتے ہیں اور گاڑی کے دونوں اطراف گشت کرتے ہیں یا کم از کم وہاں کچھ دیر ٹھہر کر مسافروں کو اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلاتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔