سب مال و متاع یہیں رہ جائے گا، اور صرف اعمال؟
یہ زندگی کے میلے، یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے،افسوس ہم نہ ہوں گے،
یہ دنیا کے میلے، یہ دنیا کے میلے
دنیا ہے، موج دریا، قطرے کی زندگی کیا
پانی میں مل کے پانی، افسوس یہ کہ فانی
یہ دنیا کے میلے، یہ دنیا کے میلے
یہ گیت ایک پرانی فلم کا ہے جسے دلیپ کمار(یوسف خان) پر فلمایا گیا تھا۔ یہ بہت حسب ِ حال ہے،حقیقت پسندانہ ہے، یاد اِس لئے آیا کہ ہم سب پاکستانی(عمومی طور پر دنیا بھر کے مسلمان) میلوں میں کھو کر انسان کے فانی ہونے کی حقیقت سے عملی طور پر گریز کر رہے ہیں اور یہ بھول گئے کہ اللہ نے اپنے کلام میں خود فرمایا:”دنیا میں جو کچھ ہے،اُسے اک روز فنا ہونا ہے اور صرف اللہ ہی کی ذات باقی رہے گی“۔
ہم پاکستان والے ناشکرے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتوں سے مالا مال ملک کو خود اپنے ہاتھوں لالچ اور دنیا کی چاہت میں برباد کر رہے ہیں،میرے پیارے پاکستان میں پہاڑ، سمندر،دریا، جنگل،صحرا اور سبزہ زار ہیں۔دنیا کی ہر نعمت یہاں پیدا ہوتی ہے، قدرتی وسائل موجود ہیں، ان سے مکمل استفادہ نہیں کیا جا رہا، جو کچھ اب تک ملا وہ بھی غیر ملکی ماہرین کے تعاون سے حاصل ہوا،جنہوں نے اپنا منافع بھی کھرا کیا، اب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم گردن سے پاؤں تک قرضوں میں جکڑے ہوئے،سود خوروں کے چنگل میں ہیں،معدنیات کی تلاش کے لئے اپنوں پر بھروسہ نہیں، غیروں پر یقین ہے،جو اپنی پسند کی تلاش کا نتیجہ دیں گے، ریکوڈک اور سینڈک کے ثمرات سے ابھی تک مستفید نہیں ہو پا رہے،تھر کے کوئلے کی نعمت کو ماحول دوست بنا کر پورے استعمال سے قاصر ہیں۔ پن بجلی کم پیدا ہوتی اور نیلم جہلم جیسے منصوبوں سے ڈالر کمانے“ اور ”بنانے“ کی خاطر چینیوں کے تعاون کے باوجود غفلت کا شکار ہوئے۔کالا باغ ڈیم کو تمام تر فنی تجاویز کے باوجود متنازعہ بنا کر کروڑوں روپے کی مشینری کو کوڑا بنا چکے۔ بھاشا ڈیم شروع کر کے بھی مکمل ہونے کی راہ دیکھ رہے ہیں،جبکہ آسان کام ہم نے کئے ہی نہیں،چھوٹے ڈیم اور بجلی گھر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے دریا سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے ایسے ایسے مقام ہیں جہاں قدرتی بہاؤ اور مضبوط کنارے ہیں،کئی منصوبوں کے اعلان کے باوجود کسی ایک پر کام شروع نہیں ہوا اور جہاں کہیں ایسا منصوبہ شروع کیا گیا وہاں رکاوٹیں پیدا کر دی گئیں، آج ہم عوام بجلی کے بلوں کے اثرات تلے دبے پڑے ہیں،کوئی کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ ریاست مقروض سے مقروض تر، غریب سے غریب تر اور اس کا مفادات کا حامل طبقہ آرام، آسائش کے باعث اللہ کو بھلا بیٹھا اور عیاشیوں میں مصروف ہے۔سڑکوں پر دوڑتی لاکھوں اور کروڑوں کی گاڑیاں بے گھر اور کرایہ دار شہریوں کے منہ چڑاتی گذرتی ہیں کہ ایک ایک گاڑی نچلے متوسط گھرانوں کی ذاتی رہائش سے بھی مہنگی ہے،اب یہ بھی ایک قدرتی مسئلہ ہے کہ یہاں مراعات یافتہ اور محروم طبقات میں تفاوت اور فرق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ محروم طبقات ناکوں ناک آ چکے، فی الحال نوبت خود کشیوں، قتل،راہزنیوں اور ڈکیتیوں تک پہنچی ہے، خود غرضی اور مفادات نے مل کر جرائم کی شرح ہی میں اضافہ نہیں کیا،بلکہ ملکی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور انارکی کی طرف دھکیل دیا ہے،اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”چلی جا رہی ہے،خدا کے سہارے“
آج دنیا آفات کی زد میں ہے۔قدرت کی طرف سے طوفانوں، زلزلوں اور بارشوں سے بہت بری طرح متاثر ہے۔ اگر دنیاوی طور پر دیکھاجائے تو ماہرین دہائیوں سے انتباہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ مانتے نہیں،درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیریوں کے پگھلنے اور سطح سمندر بلند ہونے کے حوالے سے ماہرین خبردار کرتے چلے آ رہے ہیں۔دنیا نے جس حیرت انگیز رفتار سے جدیدیت کی منزل حاصل کی اس رفتار سے ماحولیات کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی اور آج نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
ہم پاکستانی جو قدرت کی مہربانیوں سے مالا مال ہیں، ناشکرے پن کی انتہاء کر رہے ہیں،ہر چھوٹا بڑا اپنے اپنے مفاد کا اسیر ہے، بے پرواہ ہو چکے ہیں، اللہ کی رسی کو تھامنے سے منکر ہیں۔ بھائی بھائی نہیں رہے،خون سفید ہو گئے،بددیانتی اتنا رچ بس گئی کہ ماتھے کے محراب اور حج و عمرہ بھی ہمیں گناہوں سے تائب نہیں کر سکے۔
آج کل ہم اپنے ہاتھوں سے کردہ گناہوں کے شکار ہیں، بارش نہیں ہوتی، بادل پھٹتے ہیں، گلیشیر پگھل رہے،پہاڑ گر رہے اور سیلابوں کا سامنا ہے۔ہم اب بھی نہیں سوچ پاتے کہ یہ سب ہماری اپنی کارکردگی اور ہمارا کیا دھرا ہے، ہم جنگل کے جنگل کاٹ رہے ہیں،خود برسر اقتدار لوگ ملوث ہیں، ٹمبر مافیا کو روکنا تو درکنار اس کا احتساب بھی نہیں ہوتا،پہاڑوں کے ”واسی“ خود بھی اس میں ملوث ہیں۔درخت کاٹ کر پہاڑ کو زمین میں تبدیل کر کے کمائی کے لئے ہٹ، مکان اور ہوٹل تک بناتے ہیں۔درختوں کی بے تحاشہ کٹائی اور جنگل کے خاتمے کی وجہ سے پہاڑ مٹی بن چکے ہیں اور بارش میں گر جاتے اور انہی مفاد پرست لوگوں کا نقصان کرتے ہیں جن کے لالچ کی وجہ سے یہ ہوتا ہے اس میں دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں جب ہم مری اور نتھیا گلی گئے تو ہر طرف جنگل اور آبادی کم تھی،آمدورفت مشکل ضرور تھی، لیکن خطرناک نہیں،جنگل کے درختوں پر نمبر لگے ہوئے تھے۔ بتایا گیا کہ یہ محکمہ جنگلات کا عمل ہے جو قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت کی توجہ تھی۔ مقصد یہ کہ جنگل میں ترتیب رہے، اسی ترتیب سے درخت باری باری کاٹ کر لکڑی حاصل کی جاتی اور اِس دوران اتنے پودے لگائے جاتے کہ بروقت ایک درخت کی کمی دو سے زیادہ درخت پورا کریں اور ہم ہیں کہ خود جنگل برباد کر کے اور شجرکاری کے لئے مختص رقوم ہڑپ کر کے درختوں سے ملک کو محروم کرتے چلے جا ہے ہیں اور نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتباہ کر رکھا ہے ہم توجہ نہیں دیتے اور دنیا کی خاطر آخرت کو ٹھکرا رہے ہیں، حالانکہ جانتے ہیں،
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا،
جب لاد چلے گا بنجارہ
یہ کوٹھیاں، یہ بنگلے، یہ عالیشان محل اور عیش و عشرت کے وسائل سب یہیں رہ جائیں گے اور سب اللہ ہی کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔