عمراں لنگھیاں پباّں بھار

Aug 04, 2024

شاہد ملک

جن لوگوں نے اسکول کالج کے نصاب میں ’گلستانِ سعدی‘ کا مطالعہ کیا وہ مصنف کی ایک مخصوص تکنیک سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی کہ کسی موضوع پر دلیل اور ردِ دلیل سے کام لینے کی بجائے کہانی سُنا دی جائے اور اُس میں عملی افادیت کا کوئی نکتہ بھی موجود ہو۔ سیالکوٹ میں فارسی آپشنل کے من موہنے استاد، پروفیسر عبدالسلام کی کلاس میں، جنہیں سبھی اُن کی غیر موجودگی میں ’بھا سلام‘ کہتے، شیخ سعدی کی پیروی میں ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج نکالنے کی مشق ہو گئی تھی۔ جیسے کامیاب زندگی کا یہ سبق کہ فتنہ انگیز سچ کے مقابلے میں وہ جھوٹ بہتر ہے جو مصلحت پر مبنی ہو یا یہ کہ جس شخص کی اُٹھان  بُرائی پر ہے اُس پہ نیکوں کی صحبت اثر نہیں کرتی۔

 شیخ سعدی کا نام تو زورِ کلام کی خاطر لے لیا، وگرنہ گھریلو محفلوں میں بھی ’اخلاق سُدھار‘ قصہ گوئی کی روایت عام تھی۔ کوئی نہ کوئی بزرگ حقہ کا کش لے کر کہتے ”ساڈے پِنڈ دا میراثی سی۔۔۔“ پھر قصہ  شروع ہو جاتا۔ اِس فرضی یا حقیقی کہانی کے ہیرو کا میراثی ہونا لازمی شرط نہیں تھی، مرکزی کردار جولاہا، ترکھان یا گریڈ سترہ سے کم کا کوئی بھی افسر ہو سکتا تھا۔  طبقاتی احتیاط سامعین کے حفظِ مراتب کی خاطر برتی جاتی۔ پھر ہیرو کی سلسلہ وار ناسمجھیوں سے کوئی مضحکہ خیز نتیجہ نکالا جاتا۔ جب  اخلاقی سبق کا نشانہ بننے والے سامع کی مذکورہ میراثی، جولاہے یا ترکھان سے مشابہت نمایاں ہونے لگتی تو ایک واشگاف اعلان سُننے میں آتا ”جو اوہدے نال ہوئی، سو حساب تیرا اے۔“ محفل داد کے شور سے گونج اٹھتی۔

 اِس عمل میں  سُننے والوں کی دلچسپی کو برقرار رکھنا معمولی کام نہیں تھا۔ پھر بھی قصہ گو کی مہارت کا امتحان اُس مرحلے پر ہوتا جب وہ کہانی سے کوئی نیا نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتا۔ مثال کے طور پر چچا یعقوب کے اُس دوست کا واقعہ جو اپنا میٹرک کا رزلٹ جاننے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اسکول سے واپس آنے والے ایک ہم جماعت نے خبر دی کہ اوہو، تم تو فیل ہو گئے ہو۔ یہ پاکستان بننے سے نو سال پہلے کی بات ہے جب مڈل پاس نوجوان کو بھی ادنی درجہ کی کلرکی مِل جاتی تھی۔ اُسے بھی  مِل گئی، مگر ریٹائرمنٹ تک اگلے گریڈ میں ترقی نہ ہو سکی۔ مدتیں گزرنے پر آبائی شہر میں سرِ راہ اُسی ہم جماعت سے پھر ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ فیل ہونے والی بات مذاق میں کہی گئی، ورنہ وہ تو میٹرک میں پاس ہو گیا تھا۔ تو کہانی کا نتیجہ؟

 اب اگر سرکاری ملازمت کی اونچ نیچ کو معیار سمجھیں (اور یہی ترجیحی معیار تھا) تو منیر نیازی کے الفاظ میں ’یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘۔ پھر بھی چچا یعقوب نے یہ واقعہ سُنا کر اخلاقی پنلٹی اسٹروک لگانے کی کوشش نہیں کی تھی۔  البتہ ہماری اِس حیرت کو بھانپ کر کہ کہانی کا ہیرو حقیقت معلوم کرنے خود اسکول تک کیوں نہ گیا، صرف اِتنا کہا ”برخوردار، بعض اوقات یوں بھی ہو جاتا ہے۔“ سوچتا ہوں کہ اگر یہ آج کے سوشل میڈیا کا دَور ہوتا تو اِس پر کیسی کیسی پوسٹیں لگتیں:”کِتنا بیوقوف لڑکا تھا، اُس کے ساتھ جو ہوا بالکل ٹھیک ہوا۔“۔۔۔ ”یہ فیک نیوز کا کیس ہے جو 1938 ء  میں انڈین نیشنل کانگریس کی سازش لگتی ہے“۔۔ ”ایسا  ہو ہی نہیں سکتا،  چاچا جی نے گپ چھوڑی۔“

 چاچا جی نے گپ نہیں چھوڑی، گپ تو شاہد ملک چھوڑے گا جس نے خبری حقائق کی بنیاد پر بظاہر سنجیدہ نتائج دنیا سے شئیر کرنے کا فن بی بی سی لندن میں سیکھا مگر آج اپنے حالیہ دورہء برطانیہ  کا ہینڈ آؤٹ جاری کرنے کے لیے اَوروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ آپ اِسے مہارت کا فقدان کہیں گے۔ مَیں کہوں گا کہ فقدان نہیں، فراوانی۔ ہیں، فراوانی کیسے رکاوٹ بن گئی؟ وضاحت ہے تو سادہ سی لیکن تہہ دار نزاکت کی حامل۔ نزاکت یہ کہ میرے وقتوں کی عالمی نشریات کے علاقائی نمائندے اور بُش ہاؤس میں ہماری ایسٹرن سروس سمیت الگ الگ خطہ وار یونٹوں کے تبصرہ نگار جو کچھ بھی لکھتے اور بولتے اُس کا اختتامیہ اخذ کردہ نتائج کا حامل ہوتے ہوئے بھی نتائج سے عاری ہوا کرتا۔ جی ہاں، اِس نکتے میں گہری فنکاری چھپی ہوئی ہے۔

 دراصل ’کیا، کون، کب، کہاں، کیوں اور کیسے؟ اِن صحافتی سوالوں کے تحت ہم اپنی رپورٹ کو تین حصوں میں بانٹ لیتے تھے۔ پہلے  خبر کا متن۔ دوسرا سوال واقعہ کا سیاق و سباق یا آگا پیچھا۔ تیسرے نمبر پر اختتامیہ۔ اِسی کو مَیں نے نتائج سے عاری نتیجہ کہا تھا، جو سُننے میں نتیجہ ہو مگر بتانے والے کی رائے کا پتا نہ چلے۔ اگر ڈیڑھ منٹ کی رپورٹ کی جگہ ڈھائی منٹ کا تجزیہ درکار ہوا تو اِسی خاکے میں فریقین کے مختصر موقف اور امکانی تضادات شامل کر لیے۔ جیسے لاہور سے اُس صوتی مراسلے کا آخری حصہ جب پاکستان سے واہگہ کے راستے 115بھارتی ماہی گیروں کی تازہ واپسی کی بدولت چار سال میں دونوں ممالک کے مابین چار ہزار سے زائد قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ خبر کا مقطع ملاحظہ ہو: 

”دونوں ملکوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ خیر سگالی کی موجودہ فضا میں قیدیوں کے تبادلے کا عمل جلد پایہ ء تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ تاہم رہائی کی کوششوں میں مدد دینے والی پاکستانی تنظیم کا خیال ہے کہ دونوں طرف کے بیشتر ماہی گیر بحری حدود کی خلاف ورزی کا ارتکاب لا علمی کی بنا پر کرتے ہیں، کیونکہ سمندر میں سرحدی نشاندہی کا کوئی واضح اشارہ نہیں۔ اس لیے سگنل کا ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے  جو بحری حدود کی امکانی خلاف ورزی سے قبل از وقت خبردار کر دے اور ماہی گیروں کو حراست میں لینے کی نوبت نہ آئے۔“ اگر اعتراض ہو کہ ہم نے اپنی رائے چھپاتے چھپاتے مرضی کے الفاظ تیسرے فریق کے منہ میں ڈال دیے تو یہ  جملہ یوں ہو بھی سکتا ہے کہ ”گرفتار شدگان کی تعداد میں کمی کا دارومدار بحری حدود کی نشاندہی کرنے والے سگنل سسٹم کی تنصیب پر ہوگا۔“

لندن میں ہماری حدود کی نشاندہی ’عمراں لنگھیاں پباں بھار‘ کے خالق مظہر ترمذی نے کی۔  بُش ہاؤس کے پاس ثقلین امام، عارف وقار اور مَیں نے مظہر کی میزبانی میں لنچ کیا تو سگنل سسٹم ایسٹ فنچلی کا اشارہ دے رہا تھا جہاں منفرد دانشور اور میرے سیالکوٹی ہم وطن امین مغل کرسیء صدارت پر فائز ہوئے۔ امین صاحب نے ’ویو پوائنٹ‘ کی یادیں تازہ کیں جب  جنرل ضیا کے دَور میں بے خوف صحافت کے علم بردار اِس  ہفت روزہ  کے تمام عملے کو اٹھا لیا گیا تھا۔ ایڈیٹر مظہر علی خاں نے اشاعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا  اور جیل ہی میں ادارتی سٹاف کی ڈیوٹیاں لگا دیں۔ یوں تیار شدہ متن سب ایڈٹنگ کے لیے لارنس روڈ پر ’ویو پوائنٹ‘ کے دفتر میں نوجوان نوجوان صحافی اکرام الحق اور بعد ازاں انٹرنیشنل ڈرگ ٹریفکنگ پر تحقیقی کتابوں کے مصنف اکرام الحق تک پہنچتا رہا جو گرفتاری سے بچنے والے واحد ساتھی تھے۔

امین مغل کی محفل میں ’کومک ریلیف‘ کا وقفہ کم ملتا ہے۔ پھر بھی بزرگوار نے (احتجاج پر پیشگی معذرت) میرے اسلوبِ تحریر پر اعتماد کا اظہار کیا تو مظہر ترمذی کے لافانی گیت کے حوالے   سے 1985 ء یاد آ گیا جب ’اے وطن کے سجیلے جوانو‘ کے مقبول کمپوزر میاں شہریار لندن میں ایک رات میرے یہاں مقیم تھے۔ شام ہوئی تو پوچھا ”میاں صاحب، پب شب کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ ”لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ عمراں لنگھیا ں پباں بھار۔“ میاں شہریار کے برجستہ جواب میں لفظ ’پب‘ کی ذومعنویت اہلِ محفل کو پھر مزہ دے گئی اور یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ دورہء برطانیہ کی تازہ روداد سُنا کر اُس سے کیا نتیجہ نکالا جائے۔

مزیدخبریں