معزز ججوں کی بلا سے 

معزز ججوں کی بلا سے 
معزز ججوں کی بلا سے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد سے پی ڈی ایم ٹو حکومت معاشی بحالی کے لئے سیاسی استحکام کی متلاشی ہے۔ ابتداء میں پی ٹی آئی اس کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا، کیونکہ انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کے نیم مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا عمران خان کو جیل سے رہائی دلوانے اور پی ٹی آئی کو اس کا مبینہ طور پر لوٹا ہوا مینڈیٹ واپس دلانے کے لئے پی ٹی آئی کے ووٹر سپورٹر جوق در جوق سڑکوں پر نکل آئیں گے اور 9مئی سے ملتی جلتی سیاسی ابتری پیدا کر دیں گے اور یوں سیاسی استحکام کا جو خواب پوری قوم دیکھ رہی تھی، جس سے ملک کی معاشی بحالی جڑی ہوئی ہے، چکنا چور ہو جائے گا، لیکن پھر یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کی جیلوں سے باہر قیادت کی سر توڑ کوشش کے باوجود پی ٹی آئی کے ووٹروں سپورٹروں نے گھروں سے نکل کر سڑکیں ناپنے سے انکار کر دیا۔ 

پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل کے ساتھ مل کر بلوچستان سے انقلاب برپا کرنے کا منصوبہ بنا یا، مگر بلوچ عوام نے پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف کو موقع پرستی سے تعبیر کیا اور اِس کے باوجود کہ وہاں کے گوریلے نوجوان اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اپنے غم وغصے کے اظہار کے لئے پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں،پی ٹی آئی کے جھوٹ کو سپورٹ کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ وہ اپنی حکومت مخالف تحریک کا آغاز خیبرختونخوا سے کرے گی اور پھر پنجاب پہنچے گی،مگر خیبرپختونخوا کے کئی مراد سعیدوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ پنجاب نہیں جائیں گے۔اِس حوالے سے ایک حالیہ کوشش بنوں میں ہونے والے ہنگاموں اوردو بدو فائرنگ کے واقعے میں سے برآمد کرنے کی کوشش کی گئی،مگر اسے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کر کے ناکام بنا دیا، جس میں حصہ بقدر جثہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے بھی ڈال دیا۔ 

یہ ساری صورت حال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کے حصے میں ایسے ووٹر سپورٹر آئے ہیں جو یا تو پیپلز پارٹی میں ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی مار کھا کھا کر اس قدر ادھ موئے ہو چکے ہیں کہ اب ان میں ایک نئی احتجاجی تحریک بپا کرنے کا دم ست نہیں ہے یا پھر نون لیگ کے ایسے حلقے اس کے ہمنوا بن گئے ہیں،جو نواز شریف کے لئے بھی کبھی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے اور جن کے بارے میں خود نواز شریف کہتے پائے جاتے تھے کہ مجھے یہ کہہ کر کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، پیچھے سے جوتیاں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور اکیلے نواز شریف کو طالع آزماؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ تیسری طرف وہ ممی ڈیڈی کلاس ہے جو انقلات کو سوشل میڈیا پر تو کئی بار برپا کرچکی ہے، لیکن گراؤنڈ پر برپا کرنے کا وقت آیا تو پریس کانفرنسیں کرکے، معافیاں مانگ کے اور پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلانات کرکے کم از کم پی ٹی آئی سے تو اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں اور عمران خان کے ساتھ اسی صورت میں دوبارہ نظر آئیں گے اگر وہ ایک بار پھر سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو پاتے ہیں۔ ایسے شہداء میں اسد عمر، عمران اسماعیل، علی زیدی اور پرویز خٹک سمیت کئی سورماؤں کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پی ٹی آئی کو یہ ثابت کرنے میں سخت دشواری کا سامنا ہے کہ وہ عوام کی مقبول ترین جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا فارم 45اور فارم 47کا جھنجھنا 39اور41کی فہرستوں میں ڈھل چکا ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ آتی ہے کہ پی ٹی آئی پہلے کیا تھی اور اب کیا ہے اور نہ خود پی ٹی آئی کو سمجھ آرہی ہے کہ اس نے 45/47کی تکرار کرنی ہے یا 39/41کی کرنی ہے۔ 

دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور سعد رضوی کے بعد اب حافظ نعیم الرحمن نے بھی راولپنڈی میں ایک کامیاب دھرنا دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں مجمع اکٹھا کر سکتے ہیں، اگر ابھی تک کوئی جماعت نہیں ثابت کر پائی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان ابھی تک ضمانتوں اور بریتوں کے باوجود جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔

اوپر باندھی گئی ساری تمہید کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک سے ابھی تک سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ نہیں ہو سکا، کیونکہ اگر پی ٹی آئی شورش برپا کرنے میں ناکام ہوئی ہے تو اس کو کمک پہنچانے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے نے وہ خاک اُڑانا شروع کردی ہے کہ ملک دوبارہ سے سیاسی بے یقینی کا شکار ہوگیا ہے، یعنی جو مقصد پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹنے سے نہیں حاصل کرپائی اسے سپریم کورٹ نے ایک متنازع فیصلہ دے کر برپا کردیا ہے، حالانکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بار بار کہتے رہے کہ آئین اور قانون کو سامنے رکھ کر مقدمہ سنیں اور انہی کی روشنی میں فیصلہ کریں، مگر ان کے برادر ججوں نے بہتر جانا کہ آئین کو ازخود تحریر کر دیا جائے اور ملک کو اس بے یقینی کا شکار کر دیا جائے، جس کے نتیجے میں لوگ ایک ہاتھ میں بجلی کے بل اور دوسرے ہاتھ میں چاقو چھریاں لے کر ایک دوسرے پر پل پڑیں اور ان کے گھروں کی خواتین خودکشیوں میں عافیت ڈھونڈ رہی ہوں، مگر سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو اس سے کیا سروگار، ان کی بلا سے، کیونکہ ان کی بھاری بھرکم تنخواہیں تو قومی خزانے سے بلاتعطل ادا ہو رہی ہیں جسے بھرتے بھرتے عوام کی کمر دوہری ہو گئی ہے اور شائد ان ججوں کو بجلی بھی فری کھاتے میں ملتی ہوگی!

مزید :

رائے -کالم -