ففتھ جنریشن وار فیئر
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں عوامی، سیاسی اور عسکری حلقوں میں ایک عجیب و غریب انگریزی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے جس کی دقیق تحقیق کے بعد مجھ جیسے عبقریت پسند طالبعلم کو کچھ بھی سمجھ نہ آ سکا کہ آخر یہ شوشہ ہے کیا بلا؟…… ماضی بعید اور قریب کی مختلف جنگوں کے تاریخی پسِ منظر پر بات کی جائے تو وار فئیر ماڈل کا استعمال 1648ء میں معاہدہ امن ویسفالیہ کے بعد شروع ہوا۔ یہ معاہدہ اس تیس سالہ جنگ کے بعد ہوا تھا جو اْس وقت کی جرمن سلطنت اور دوسرے ممالک کے درمیان مذہبی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔
تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ اس جنگ میں تقریباً 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنگ کیتھولک عیسائیوں اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان مذہبی منافرت کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔ جنگوں کے ماڈل،یعنی وار فئیر ماڈل کی اصطلاح اس معاہدے کے بعد سے شروع ہوئی اور اس تیس سالہ جنگی دور کو ”فرسٹ جنریشن وار فئیر“ کہا گیا۔ اس جنگ اور اس کے خاتمے کے بعد دنیا بھر میں آج کل کی رائج خود مختار ریاستوں کے نظام کا آغاز ہوا۔ ہنگری کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر جنگوں کی وہ شکل ہے جس میں بڑی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں، ان جنگوں کو ”فری انڈسٹریل وارز“ بھی کہا گیا ہے۔اس جنریشن میں انفنٹری یا فوج کے دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور انسانی قوت کو کامیابی کا منبع سمجھا جاتا ہے،یعنی جتنی بڑی فوج ہوگی، اتنی ہی زیادہ کامیابی ہوگی۔یہ پہلی جنریشن سترویں صدی کے وسط سے لے کر اْنیسویں صدی کے آخر تک چلتی رہی اور انہی اصولوں پر دنیا بھر میں مخلتف جنگیں لڑی گئیں۔
امریکی پروفیسر رابرٹ جے بنکر کی لکھی ہوئی ایک تحقیق کے مطابق سیکنڈ جنریشن وار فیئر ٹیکنالوجی کی جنگیں تھیں، جن میں فوج کے دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی اور جنگوں میں بڑا اسلحہ جیسا کہ مشین گن، میگزین رائفلز اور توپوں نے لے لی، پروفیسر رابرٹ نے ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگیں قرار دیا۔ جنگوں کا یہ دور اْنیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوا اور ابھی تک جنگیں انہی اصولوں پر لڑی جاتی ہیں۔پروفیسر رابرٹ کے اسی تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ تھرڈ جنریشن وار فیئر میں جنگیں آئیڈیاز، یعنی خیالات کی بنیاد پر شروع ہوگئیں۔پروفیسر رابرٹ کے مطابق اس دور میں جنگی چالوں کا استعمال عام ہوا۔ ان کے مطابق ان جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن قوتوں کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے یا ایسی جگہوں سے حملہ کیا جاتا ہے،جس میں مخالف فریق کو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حملہ ہوا ہے۔
ایک اور تحقیقی مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فیئر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس جنریشن کی جنگوں میں ائیر کرافٹس، یعنی جنگی طیاروں کا استعمال بھی شروع ہوگیا۔جدید دور کی جنگوں کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا گیا ہے۔ مختلف تحقیقی مقالوں میں لکھا گیا ہے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح 1989ء کے بعد سے شروع ہوئی۔اس جنریشن کی جنگوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شامل کیا گیا ہے۔ رابرٹ بنکر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ آج کل فوج ایک آبادی والی جگہ پر حملہ کرتی ہے اور اس چال کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا ایک اہم عنصر گردانا جاتا ہے، لیکن دیگر مختلف تحقیقی مقالوں میں جنگوں کے اس ماڈل پر بہت تنقید بھی سامنے آئی ہے اور بعض افراد جنگوں کے اس ماڈل پر یقین ہی نہیں کرتے۔ مختلف یونیورسٹیوں کے ریسرچ پیپرز پڑھ کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ماڈل ابھی ارتقائی دور سے گزر رہا ہے اور ابھی تک اس کو درست طور پر سکالرز کے سامنے نہیں رکھا گیا، تاہم دنیا بھر میں بعض ادارے،بالخصوص ملٹری امور سے وابستہ ادارے اس قسم کی مختلف اصطلاحات استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
وار فیئرز کے مذکورہ بالا مکمل پس منظر کے بعد یہ نکتہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ مقتدرہ کی ایسی شاطریت ہر زمانے اور ہر ریاست کے عوام اور جمہوری اداروں کا استحصال کرنے کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ وار فیئر سیریز کی پروپیگیشن صرف اْن ممالک میں اْٹھتی رہی ہے، جن میں عوامی اور جمہوری بالادستی کو سبوتاڑ کرنے کی حکمتِ عملی پر کام کیا جا رہا ہو۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند برسوں سے ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح سننے میں آ رہی ہے،جس کا استعمال زیادہ تر سیاسی جماعت کے رہنما کر رہے ہیں، تاکہ مقتدرہ کی مبہم اور نامعلوم مراعات کا تحفظ کیا جا سکے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں کا مْلّا اس اصطلاح کو تہذیبی تصادم سے تعبیر کر رہا ہے، تاکہ وہ اپنے مفاد کی جنگ اس جدید مبہم بیانیہ کی بنیاد پر لڑ سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک کسی ریاست کے ملکی دفاع کو مصنوعی طور پر مخدوش ثابت نہ کیا جائے، تب تک اِس طرح کی مبہم اور لایعنی اصطلاحات سے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ ویسے بھی یہاں یہ رواج کافی پرانا ہے کہ مغرب سے درآمدہ کوئی بھی شعار، قانون یا اصطلاح ہمارے ہاں مستند سمجھی جاتی ہے،
تاآنکہ اس کا مکمل علمی یا منطقی پوسٹ مارٹم کرکے عوام کو حقائق سے آگاہ نہ کر دیا جائے۔ موجودہ حکومت اپنی تمام تر انتظامی نااہلی چھپانے کے لئے اس قسم کی مبہم اور غیر ضروری اصطلاحات کا سہارا لے کر اپنی کوتاہیوں کو آئینی جواز فراہم کرنے کی کوشش میں مبتلا ہے۔ چونکہ عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے اور جو کچھ پڑھے لکھے ہیں، ان کی تحصیلِ علم بھی بجز حصولِ روزگار کچھ یہی نہیں تو ایسی صورت حال میں انتہائی دقیق اور شاطرانہ ریاستی پالیسیوں کو کون سمجھے؟ ملک و قوم کی خدمت علمی و اخلاقی بنیاد پر انجام دینے کی نفسیات پنپنے میں ابھی بہت وقت لگے لگا۔ سیاست جمہوریت، آئینی ذمہ داری فی نفسہ کوئی معنی نہیں رکھتی، جب تک کہ ایک عام آدمی زیورِ تعلیم سے کماحقہ آراستہ نہیں ہو جاتا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی دلکش عمارتیں بنانے سے کوالٹی آف ایجوکیشن کبھی نہیں پنپ سکتی، اس کے لئے ہمیں اصلی اْستاد اور تہذیب یافتہ دانشور پیدا کرنا ہوں گے۔ ہم نے ابتداء ہی سے اپنے عظیم اور حکیم لوگوں کی ناقدری کی ہے۔ چار کتابیں پڑھ کر ہماری قوم ابتداء ہی سے خود کو افلاطون اور فیثا غورث سمجھنے لگی ہے۔ خوبصورت تعلیمی عمارتیں بنانے سے سینے علم و تہذیب سے روشن نہیں ہوتے، اقبال فرماتے ہیں:
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا