پولنگ صرف چار روز کے فاصلے پر، سیاسی جماعتیں اس پر توجہ دیں!
کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی کے درمیان سخت مکالمہ شروع ہو گیا۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام لگائے جا رہے اور فریقین سارا بوجھ الیکشن کمیشن پر منتقل کررہے ہیں۔ لاہور میں بیٹھ کر حالات کا تفصیلی جائزہ ممکن نہیں کہ یہاں تو صرف خبروں سے استفادہ ہوتا ہے۔ اگر الیکٹرونک میڈیا پر خبریں اور فریقین کی گفتگو دیکھی اور سنی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم والے حضرات کچھ زیادہ ہی مشتعل ہیں، الیکٹرونک میڈیا کی احتیاط کے باوجود کمال مصطفےٰ کے بیانات نشر ہو ہی جاتے ہیں، جو سن کر دل دہل جاتا ہے ۔معلوم نہیں پیپلزپارٹی والوں کو اندازہ اور اندیشہ ہے کہ نہیں لیکن میں ماضی میں ڈوب جاتا اور خوفزدہ ہوں کہ حکام اور متعلقہ اتھارٹیوں کی محنت اور زبردست نوعیت کی یقین دہانیوں کے باوجود کہیں کراچی میں کوئی بڑا تماشہ نہ ہو جائے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کی جناح پارک اور حیدرآباد کے پکا قلعہ کی گراﺅنڈ کے جلسے کا تاثر لے کر کنوینئر مقبول صاحب نے تو جیت کا اعلان بھی کر دیا ہے او رمیرے خیال میں جو بیانیہ متحدہ کی طر سے ان انتخابات کے حوالے سے اختیار کیا گیا اسے بھی سنجیدہ لینا اور اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے ۔ توقع ہے کہ سندھ کی نگران حکومت اور مقتدرہ کو یہ احساس ہوگا کہ متحدہ والوں کی گفتگو کے بعد ہی بلاول بھٹو نے ان کے خلاف لسانیت کے حوالے سے الزام لگایا ہے۔
بہت ہی معذرت کے ساتھ میں متحدہ کمیٹی کے سینئر اراکین کی گفتگو کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ احتیاط کریں کیونکہ ان کے بعض دعوے ملک میں بسے ان مہاجروں کے سینے شق کر دیتے ہیں جن کے خاندانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو بھارت میں رہ گیا ہو، یہ سب لوگ کٹ گئے، معذور ہو گئے، بہنوں بچیوں کی اموات اور ان کی بے حرمتی برداشت کی اور سب کے سب چلے آئے۔ یہاں ان کی بھی تیسری نسل ہے اور وہ خود کو مہاجر نہیں کہتے لیکن آپ کی زبان یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتی کہ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہیں اور ہم پر ظلم کیا جاتا ہے آپ ان نعمتوں کا شکر بھی ادا نہیں کرتے جو پاکستان کی بدولت آپ حضرات کو حاصل ہیں، آپ حضرات لینڈ کروزروں سے ایسے اترتے ہیں جیسے یہ آپ 1951ءکے بعد ساتھ لے کر آئے ہوں ، میں ملک کے ہر شہری کا احترام کرتا ہوں جو کہ مکران کے ساحل پر رہتا ہو یا اسلام آباد کے پوش ایریا کا رہائشی ہو، میرے لئے سب پاکستانی ہیں اور ان سب کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو آئین پاکستان دیتا ہے اس لئے میری استدعا اور خواہش ہے کہ آپ حالات کو اس نہج پر نہ لے جائیں کہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی حقائق کے حوالے سے آوازیں اٹھنے لگیں، براہ کرم بانی جماعت سے الگ راہ اختیار کی ہے تو ان کے نظریات سے بھی تائب ہو جائیں، یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب کے آباءہی نے اسے بنایا تھا اور یہ شرف قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ اور عوام نے مجموعی تحریک کے نتیجے میں حاصل کیا تھا، اس پر سب کا دعویٰ ہے اور سچا ہے۔
میں ہی نہیں، میرے جیسے سب انسان خوفزدہ ہیں اور ہم اللہ سے ہر دم رحم مانگتے ہیں، یہ ملک ہی ہماری پناہ گاہ ہیں ، ہم نہ تو امریکہ اور برطانیہ جا کر بس سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کینیڈا کی شہریت چاہیے یہ سب آپ کے ساتھیوں کو مبارک ہو، جن کے آپ نام بھی نہیں لیتے، براہ خدا امن میں آپ بھی اپنا حصہ ڈالیں، اسی حوالے سے میری پیپلزپارٹی والوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ ملک پر حکمرانی کے دعویدار اور اب پھر حکومت بنانے کے دعویدار ہیں، ان کو زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور حقائق کو اسی حد تک رہنے دیں جس حد تک ہیں، آپ کو غور کرنا ہوگا اور جمہوری اصولوں ہی کے مطابق قدم اٹھانا ہوں گے، تنازعات اور لڑائی جھگڑوں سے نہیں بنا اور نہ ہی اکثریت اقلیت کے دعوﺅں میں کوئی وزن ہوتا ہے آپ سب بھی اسی صف میں آ گئے اس لئے گریز کریں۔
بات تو انتخابی عمل کی کرنا تھی کہ اب بہت کم وقت رہ گیا۔ آج اتوار سے 8فروری کے درمیان صرف تین روز کا فرق ہے اور سب کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ اسے سکون سے زندگی گزارنے کے مواقع ملیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ تحفظ سے رہے، ان عوام کے حقیقی مسائل روزگار، مہنگائی اور امن و امان ہیں، یہاں اس حوالے سے تسلیاں ہیں عملی حکمت کا بیان نہیں ہے، مہنگائی میں کمی کیا ہوتی الٹااضافہ ہو رہا ہے ،خود حکومت پٹرولیم، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا کر عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے جبکہ ٹیکسوں کی بھرمار اپنی جگہ ہے۔ اشرافیہ کچھ دینے کو تیار نہیں، خون عوام کا نکالا جا رہا ہے جو بوجھ تلے دبے سسک رہے ہیں۔ آج یہ سب اپنی بھوک سے نڈھال ہیں اور روز مرہ کی روٹی ہی کی فکر کھائے جا رہی ہے نگران حکومت کوبالکل فکر نہیں وہ بھی اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔
اس وقت تین چار جماعتوں کی طرف سے بہت زور لگایا جا رہا ہے اور ماحول کافی گرم بھی ہو گیا ہے۔ انتخابی سرگرمیوں میں اضافے کا کریڈٹ بہرحال بلاول بھٹو کو جائے گا جنہوں نے بہت تیزی سے حرکت کی اور ماحول کو گرما دیابلاول بھٹو کے بعد ہی سہی مسلم لیگ (ن) بھی میدان میں ہے اور مولانا فضل الرحمن بھی پیچھے پیچھے چلے آ رہے ہیں، ان حالات میں الیکشن کے انعقاد کا یقین ہونا چاہیے اور سب کو منفی حربوںکی بجائے مثبت انداز اختیار کرنا ہوگا۔ میرا اپنے سیاسی رہنماﺅں سے ایک سوال ہے کہ وہ اس امر سے آگاہ کریں کہ ملک پر93سو ارب کا جو قرض چڑھ چکا وہ کیسے اترے گا؟امن و امان سب کی مشترکہ کاوش ہونا چاہیے۔