سلطان محمود غزنوی کا پسندیدہ شہر جہلم، تاریخ کے آئینے میں

پنجاب کا ایک تاریخی شہر اور ضلع جہلم ہے،جو جرنیلی سڑک پر دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر گجرات سے53 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ضلع تین تحصیلوں جہلم، سوہاوہ اور پنڈ دادن خان پر مشتمل ہے۔ ضلع جہلم کے شمال مغرب کی جانب ضلع راولپنڈی اور شمال مشرق کی طرف ضلع میر پور (آزاد کشمیر) واقع ہے۔ جبکہ مشرق کی طرف ضلع گجرات، جنوب کی طرف ضلع منڈی بہاؤ الدین، مغرب کی جانب ضلع خوشاب اور ضلع چکوال واقع ہے۔ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر اسد سلیم شیخ اپنی کتاب "نگر نگر پنجاب " میں لکھتے ہیں کہ جہلم کے نام کے بارے میں مورخین کی مختلف آراء ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جہلم کا نام پہلے جلہم تھا۔ جل کا مطلب پانی اور ہم" کا مطلب ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔ یہ لفظ کثرت استعمال کی وجہ سے جہلم ہو گیا۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ جہلم یونانی زبان میں ایک چھوٹے نیزہ نما ہتھیار کو کہا جاتا ہے اور چونکہ یونانیوں نے راجہ پورس کا مقابلہ انہی نیزوں سے کیا تھا اس لیے اس مقام کا نام ”جہلم“ ہو گیا۔ یہ شہر تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے آباد ہوا تھا۔ سکندراعظم اور راجہ پورس کی لڑائی مونگ اور رسول کے علاقے میں ہوئی تھی جو جہلم سے تقریباً 45 کلو میٹر مغرب میں واقع ہے۔ سکندر اعظم نے راجہ پورس کی بلند حوصلگی کی بنا پر جہلم کا تمام مفتوحہ علاقہ راجہ پورس کو واپس کر دیاتھا۔ سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری نے بھی یہاں اپنی اپنی حکومتیں قائم کیں۔ جہلم شہر سے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں ایک پرانا قلعہ روہتاس ہے،جسے شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا۔ سکندر اعظم نے دریائے جہلم کے کنارے دو شہر آباد کئے تھے۔ پہلا شہر بالکل اسی مقام پر بنایا تھا، جہاں لڑائی ہوئی تھی۔ اس شہر کا اب نام و نشان تک نہیں رہا۔ دوسرا شہر اس نے اپنے محبوب گھوڑے بیوسیلمالس سے منسوب کیا جو اس لڑائی میں کام آیا تھا۔ شاہان مغلیہ عہد میں اس دریا کا نام بہت مشہور تھا۔ جبکہ سکھوں کے عہد میں اسے جہلم کہا جانے لگا۔ 1532ء کے قریب چند ملاح کشتی رانی کی سہولت کے لیے دریا کے دائیں کنارہ پر آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے ہی موجودہ شہر جہلم کی بنیاد ڈالی۔ سکھوں کے عہد حکومت میں دریا کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ تعمیر کیا گیا جس میں ہر لمحے فوج مقیم رہتی تھی۔ اس قلعہ کے مکانات کو اندر کوٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ کندن گھاٹ سے محلہ اندر کوٹ تک قلعے کی حدود تھیں مگر جہاں اس قلعہ کو شدید طغیانی سے دو چار ہونا پڑا، وہیں سکھا شاہی کے خاتمے کے بعد بیرونی ٹوٹی پھوٹی فصیل اور گرتی ہوئی دیواروں کو بالکل غائب کر دیا گیا اور اس کے مختلف حصوں کو رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا۔24 مارچ 1849ء کو برطانوی حکومت جہلم شہر پر قابض ہوئی،اس وقت یہ قصبہ صرف پانچ سومکانات پر مشتمل تھا۔ اکثر آبادی ملاحوں اور تجارت پیشہ پر مشتمل تھی۔ دریا کے کنارے انگریزی فوج کی چھاؤنی قائم کی گئی جس کی وجہ سے پارسی اور دیگر تجارتی لوگ بھی یہاں آباد ہوگئے۔ کشتیوں کے ذریعے ہزاروں من نمک پنڈ دادن خان سے یہاں لایا جاتا تھا اور پھر دیگر علاقہ جات کو بھیجا جاتا تھا۔ 1867ء میں یہاں میونسپلٹی قائم کی گئی۔ بعد ازاں ریلوے اسٹیشن بھی قائم ہوا اور دریائے جہلم سے نہریں بھی نکالی گئیں۔ اب یہ ضلعی صدر مقام اور فوجی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل شہر ہے۔ انگریز کے عہد میں یہاں مسافروں کے ٹھہرنے کے لیے دوسرا ئیں بھی تعمیر ہوئیں جو سرائے منگل سائیں اور سرائے دیوی داس کے نام سے مشہور تھیں۔ بے شمار عروج و زوال سے گزرنے کے باوجود آج بھی اس شہر میں کئی قدیمی آثار موجود ہیں۔ دریا کے کنارے قدیم عمارات نمایاں نظر آتی ہیں۔ میدان پاکستان، شاندار چوک، کینٹ چوک، چوک گنبد والی مسجد، اکرم شہید میموریل پارک، اکرم شہید نشان حیدر لائبریری، اقبال لائبریری، اکرم شہید اسٹیڈیم، گلشن سرائے، پاک سرائے قدیم مندر، جہلم شہر کے نمایاں تاریخی مقامات ہیں۔ اس کے علاوہ کینٹ چوک کے ساتھ وہ مشہور فائٹر طیارہ بھی نصب ہے جس کے جانباز پائلٹ نے دفاع وطن کی خاطر اس طیارے سے پٹھان کوٹ اور بھارت کے دیگر ہوائی اڈوں پر کامیاب بمباری کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ جہلم کو شہیدوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ اس ضلع کے اکثر لوگ فوج میں ملازمت کرتے ہیں ہیں۔ کئی ایک نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ملک کا کامیابی سے دفاع کیا۔ ان میں سے سب سے بڑا نام محمد اکرم شہید (نشان حیدر) کا ہے،جن کا تعلق ضلع جہلم کے گاؤں نکہ کلاں سے تھا۔ جہلم عمارتی لکڑی، کپڑے، سگریٹ اور شیشہ سازی کے کارخانوں کے لیے مشہور ہے۔ الائنس ٹیکسٹائل ملز1954ء میں قائم ہوئی جبکہ اسی سال پاکستان ٹوبیکو کمپنی قائم کی گئی۔پرائم گلاس فیکٹری1952ء اور پلائی وڈ فیکٹری 1957ء اور چپ بورڈ فیکٹری 1957ء میں قائم کی گئی۔ رانی گھی مل بھی یہاں قائم ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی صنعتیں بھی موجود ہیں۔ علاقے کی زرعی پیداوار میں گندم، باجرہ،مونگ، موٹھ، تل، جو ہن، جوار، ماش، مسور، چنا کی فصلیں شامل ہیں۔ دریائے جہلم کے کنارے پر مسجد افغاناں سے تھوڑے فاصلے پر جو بلی گھاٹ کا تاریخی مقام ہے۔ یہاں پر سیر و تفریخ کے لیے کشتیوں کا انتظام تھا۔ یہ پارک دھنیت رائے نے جارج پنجم کی تاج پوشی کی یاد میں بنوایا تھا۔ اس پارک میں ایک بارہ دری بھی بنوائی گئی تھی اور یہاں سے سیٹرھیاں اتر کر دریا تک جاتی تھیں۔ اس مقام پر قائد اعظم محمد علی ؒ جناح اور راجہ غضنفر علی نے مسلم لیگ کے جلسوں سے خطاب کیا تھا۔ جہلم میں حضرت بابا سلیمان پارس کا مزار دریائے جہلم کے کنارے الطاف پارک کے ساتھ واقع ہے۔ان کے علاوہ جہلم شہر میں حضرت ملک محمد معلمی اور حضرت سید بابا کرم شاہ کے مزارات بھی ہیں۔ حضرت بابا کرم شاہ، احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ ہندستان آئے تھے۔ آپ یہاں مقیم ہو گئے اور رحلت فرمانے کے بعد یہیں مدفون ہوئے۔ قیام پاکستان سے قبل شہر جہلم میں دیوی داس، بشن داس اور منگل سین کی تین سرائیں بھی موجود تھیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال جہلم کے رہنے والے تھے۔ وہ دو مرتبہ جہلم دیکھنے آئے۔ سید ضمیر حسین جعفری جن کا شمار ملک کے معروف ادیبوں، شاعروں اور مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ضلع جہلم کے گاؤں چک عبد الخالق میں پیدا ہوئے۔