دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر46
میں نے سائرہ بانوکی تکلیف کو دل پر محسوس کیا اور وضاحت دی کہ کیونکر میں نہ آسکا تھا ۔اپنے دوست کی ناگہانی ضرورت اور اپنی مجبوری سے اسے آگاہ کیا ۔پھر اس سے پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ سمندر پرجاسکتی ہے۔اس نے رضامندی دی تو میں اسے گاڑی میں بیٹھا کر سمندر پر چلا گیا ۔ہم دونوں سمندر پر خاموش بیٹھے رہے۔وہ پانی کی لہروں کو دیکھتی رہی ۔سمندر کی لہروں میں بڑا سکون تھا ۔مجھے بہت بھلا لگ رہا تھا ۔میں نے ہمت کی ،گلا کھنکارااور کہا
’’ سائرہ تم اس قسم کی لڑکی نہیں ہو جس کے ساتھ میں گاڑی میں گھوموں پھروں،یا پھر تمہارے گرد منڈلا تا پھروں ۔میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔کیا تم مجھ سے شادی کرنا پسند کروگی‘‘
سائرہ نے ترنت تیکھا سوال کیا’’ مجھ سے پہلے آپ نے یہ بات کتنی لڑکیوں سے کہی ہے‘‘
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عام حالات ہوتے تو میں اسکا جواب شاید کچھ اور دیتا ۔غصہ میں آجاتا ۔لیکن میں نے نہایت تحمل سے اسکی بات سنی اور پوری سچائی کے ساتھ جواب دیا کہ وہ ایسی عورت ہے جس سے محبت کی جاسکتی ہے۔وہ میری بیوی بننے کے لائق تھی۔یہ میرے اندر کی آواز تھی ۔وہ آواز جو اماں کے دل کی تھی۔میں نے محسوس کیا کہ سائرہ کو میری اماں نے بھی پسند کرلیا ہے ۔وہ مسکرائی اور مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جن میں خلوص ،بے پناہ چاہت ہوتی ہے۔میری زندگی کا سکون اس سے وابستہ ہوسکتا تھا ۔میں اپنے سارے غم اور خوشیاں اس سے شئیر کرسکتا تھا۔اس نے مجھے قبول کرلیا ۔میرے دل میں گہراسکون سا اتر گیا۔روح سرشار ہوگئی۔
میں نے اسے ساتھ لیا اور گاڑی کا رخ اسکی اماں کے گھر کی جانب کرلیا ۔میں اسکی اماں ،بھائی سلطان اور اسکی بیوی فرحت سے بھی بات کرنا چاہتا تھا ۔ان کی اجازت لینا چاہتا تھا ،میں سمجھ سکتا تھا کہ سائرہ اس وقت اپنے عروج کی جانب محو سفر تھی ۔وہ اپنے کام بارے بڑی جذباتی تھی ۔وہ اکثر رات کو سونے سے پہلے دعا کیا کرتی تھی
’’ یااللہ مجھے بہت بڑا فلمی ستارہ بنا دے کہ جس طرح تونے میری ماں کو بنایا ،اورجلدی سے مجھے مسز دلیپ کمار بنا دے ‘‘ مجھے اب معلوم ہوا تھا کہ وہ دل سے مجھی چاہتی تھی،میں اسکی مراد تھا ۔
میں نے اسکے گھر والوں کے سامنے پرپوزل رکھی ،اسکے بڑوں کے سامنے ایک غیرت مند پٹھان کی طرح اپنا مدعا بیان کیا تواماں جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے انہوں نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور دعا دی کہ اللہ ہماری جوڑی سلامت رکھے ۔اللہ میرا اقبال بلند کرے۔
نسیم آپا کا فرط جذبات سے چہرہ دیدنی تھا۔وہ ہم دونوں سے بار بار بغل گیر ہوتیں،ماتھا چومتیں اور دعائیں دیتیں۔میری زندگی میں نسیم آپااور سلطان کی وجہ سے بڑا سکون آیا تھا ۔دونوں ہمیشہ میرا سایہ بن کر رہے ۔نسیم آپا باوقار خاتون تھین،انتہائی مخلص ۔انہوں نے مٹھائی منگوائی اور منہ میٹھا کرایا،کھانا تیار کیا گیا لیکن سائرہ کی خوشی دیدنی تھی۔وہ کھانے کی جانب دیکھ بھی نہیں رہی تھی بس خوشی سے دیوانی ہوئے جارہی تھی۔میں نے اس موقع پر کہا’’ کچھ کھا بھی لو،اسے اپنا ہی گھر سمجھو‘‘
وہ لمحے ناقابل بیاں ہیں۔خوشیاں کسطرح پالی پور کے اس آنگن میں اتررہی تھیں۔میرا بنگلہ اگرچہ سائرہ کے بنگلہ سے کچھ ہی قدم پر تھا لیکن اسکی تمیز اور اخلاقیات قابل ستائش تھیں۔اسکی تربیت بہت اچھی ہوئی تھی۔مشرقی انداز میں۔ہم دونوں ان سے اجازت لیکر نکلے اور میں اسے لیکر کارٹر روڈ کی اس عمارت تک جاپہنچا جہاں میرا بھائی ناصر دوسری منزل کے فلیٹ میں اپنی بیوی اداکارہ پارہ کے ساتھ رہتا تھا۔اس سے نیچے والے فلیٹ میں میرا دوست گوبندو رہتاتھا۔وہ بھی اداکار تھا ۔میں نے گاڑی رکوائی اور شوفر سے کہا کہ وہ تیز ہارن بجائے تاکہ گوبندو ہارن سن کر کھڑکی سے اپنا منہ نکالے۔وہ ہارن کو پہچانتا تھا۔ہارن بجتے ہی وہ کھڑکی پر آیا تو میں نے اونچی آواز میں کہا کہ وہ پانی کی بوتل لیتا ہوا آئے۔وہ پانی لیکر نیچے آیااور جب گاڑی میں اس نے نظر ڈالی تو حیرت سے جھٹکا کھا کر وہ پیچھے ہٹا۔اندر سائرہ کو دیکھا جو مسکرارہی تھی۔وہ کبھی میرا منہ دیکھتا اور کبھی سائرہ کا۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ ایسا انقلاب بھی آئے گا۔
گوبندو میرے ان پیغام رسانوں میں سے تھا جو مجھے شوٹنگ کے دوران سائرہ کی کیفیات سے آگاہ کیا کرتے تھے کہ وہ میرے بارے کس قدر تذبذب کا شکار رہتی ہے۔اداکار نذرحسین اور سنجیو کمار بھی میرے ایلچی تھی۔دوست جو ٹھہرے۔ان دنوں جب سائرہ جودھ پور میں ’’سستا خون مہنگا پانی‘‘ کی شوٹنگ (۶۶ء)میں مصروف تھی تو گوبندو مجھے اسکے بارے بتادیا کرتا تھا ۔یہ کے آصف کی فلم تھی۔
اس دن میں سائرہ کو لیکر پھر سمندر پر چلاگیا۔ہاتھوں میں ہاتھ دئے ہم ساحل پر گھومتے رہے،باتیں کرتے رہے۔دل بے حد مسرور تھا کہ مجھے سائرہ کی صورت میں وفا کی دیوی مل گئی ہے۔ہم چہل قدمی کررہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہوگئی،میں نے اسے نیک شگون سمجھا کہ اللہ کی یہ رحمت ہم پر برسی ہے تو سب اچھا ہوگا۔میں نے جھٹ اپنی جیکٹ اتاری اور سائرہ کے کومل بدن کو اس میں ڈھانپ د یا،اسے بارش اور سردی سے بچا نے کی میری یہ ادا سائرہ کے دل میں اتر گئی۔اس نے میری ہر وہ شے جو اسے بہت عزیز تھی اسے جان سے عزیز بنا کر اپنے پاس سنبھال رکھا تھا ۔یہ جیکٹ ابھی تک اسکے پاس محفوظ ہے۔
میں اب اسے اپنے گھرلے جانا چاہتاتھاکہ گھر والوں سے اسکو ملوا سکوں۔جب ہم گھر پہنچے تو باہر ناصر کی گاڑی کھڑی نظر آئی ،گویا وہ ادھر آیا ہوا تھا۔ناصر مجھ سے چھوٹا تھا ۔مجھے بے حد عزیزتھا ،میراہم رازتھا ۔جب ہم گھر میں داخل ہورہے تھے توسیڑھیاں چڑھتے ہوئے سائرہ بہت ڈرسی گئی ۔میں نے اسکا ہاتھ گرمجوشی سے دبایا ،اسے تسلی دی۔ڈرائنگ روم میں بیٹھے ناصرنے ہمیں دیکھا تو حیران رہ گیا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔میں اور وہ بڑی گرم جوشی سے ملے اور پھر میں نے بے تابانہ ڈرامائی انداز میں کہا
’’ ناصر سنو سائرہ اور میں کررہے ہیں۔۔۔۔ شادی‘‘
وہ اپنی جگہ سے اچھلا’’اوئے یارا تم میری ٹانگ کھینچ رہے ہو ،مذاق تو نہیں کررہے ۔یہ حسین حادثہ کیسے ممکن ہوا ؟‘‘یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور خوشی سے میرے گلے لگ گیا،مجھے مبارکباد دی اور چلا کر بولا’’ مجھے یقین نہیں ہورہا۔میرے لئے اس سے زیادہ حیران کن خبر کوئی اور ہوہی نہیں سکتی‘‘
خبر تو یہ ہر کسی کے لئے حیران کن تھی۔میرا اپنا یہ حال ہوگیا کہ مدراس میں شوٹنگ تھی اور میں سائرہ سے ملنے کے لئے بے تاب ہوجاتا ۔ہر دوسرے روز طیارے پر پالی پور کے اس بنگلے میں پہنچ جاتا جہاں سائرہ میرا انتظار کررہی ہوتی تھی۔اس سے ملتا،نسیم آپا،دادی اور سلطان سے گپ شپ ہوتی،چائے اور کھانے کا دور چلتا ۔بس میں نہیں ہوتا تھا کہ وقت ٹھہر جائے۔سائرہ سے مل کر جب واپس جاتا تو ہم دونوں ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہوئے سوگوار ہوجاتے،آنکھوں میں چبھن سی محسوس ہوتی ۔اس محبت میں حیااور تقدس کی دیوار قائم تھی۔(جاری ہے )