لاہور لٹریری فیسٹیول اور سوچ کے دروازے
لاہور لٹریری فیسٹیول گذشتہ دنوں الحمرا آرٹس کونسل میں منعقد ہوا، ہم بھی وہاں موجود تھے، علم وادب اور تحقیق و جستجو کا بڑا چرچا ہوا، کتابیں خریدنے پر بہرحال بڑا ہی خرچہ ہوا۔ خیر ہو پروفیسر ڈاکٹر یاسر خان مارتھ چیئرمین شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز منہاج القرآن یونیورسٹی کی جن کی خصوصی شفقت اور محبت کی بدولت میں اور میرے رفقائے کار نے مذکورہ فیسٹیول دیکھا اور بھلا ہو بہار کا جب بھی آتی ہے فیسٹیول/ میلے سج جاتے ہیں اور مہروماہ تماشائی بن جاتے ہیں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ساری دنیا سبز ہو چکی ہے، سبز ہلالی پرچم لہرا دیئے جاتے ہیں اور دِل ودماغ میں امید کے چراغ جلا دیئے جاتے ہیں۔ آنکھیں خواب دیکھنا شروع ہو جاتی ہیں سوچ کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فطرت کھل کھلا کر انسان کی بوقلمونیوں پر قہقہے لگاتی ہے۔ حالات جوں کے توں ہیں ڈالر مکمل طور پر بے اعتبارا ہو چکا ہے اور سٹاک ایکسچینج نے چینج ہونے سے صاف انکار کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نظریں بھیگی بلی کی طرح پینترے بدل رہی ہیں۔ کسان نیلی چھت والے پر امید لگا کر بیٹھا ہے۔ سرمایہ دار فل استحصال کے موڈ میں ہے اور عوام پورے ذوق شوق سے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا رہے ہیں، پیر کا گھر بجلی کے چراغوں سے روشن ہے اور مرید کی جیب میں بجلی کے بل کی ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں،طالبعلم علم کی تلاش میں ماں کا سارا زیور بیچ کر سفر پر روانہ ہو چکا ہے اور استاد نے اوپن مارکیٹ میں ٹیوشن کی دکان کھول لی ہے جس پر مال نایاب ہے اور ضرورت مند کی جیب میں پیسے ناکافی ہیں۔ عوام ملکی ترقی و استحکام کا خواب دیکھ رہے ہیں اور موجودہ صورتحال پر شدید اضطراب کا شکار، لیکن ٹیکس دینے کے وقت ان کا مکمل ”جواب“۔ سیاسی قوتوں نے اتحاد کرلیا ہے اور غیر سیاسی رویے بڑھکوں کے گرد طواف کررہے ہیں، اس ساری صورتحال کے پیش نظر قانون سازی کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے، نئے نئے آئیڈیاز اور نئی نئی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ دنیا بہت بڑی کتاب ہے اور زمانہ بہت بڑا استاد ہے ویسے تو ہم بھی بہت بڑے استاد ہیں دکھاتے دائیں کی ہیں اور مارتے بائیں کی ہیں، دائیں اور بائیں بازؤوں کا ہمیشہ دنگل جاری رہتا ہے اور ریفر ی کے فرائض انجام دینے والے لیفٹ رائٹ کردیئے جاتے ہیں اور آخری وسل پر میچ کا حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم۔ عینک کے شیشے صاف کرتے ہیں اور مستقبل میں جھانک کر دیکھتے ہیں اور میرا وجدان کہتا ہے پھر ہم سارے دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
متذکرہ بالا فیسٹیول میں وافر مقدار میں کتابوں کے سٹال تھے اور تربیت کے لئے سیمینار، مذاکرے اور ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ایک نشست پرانی فلموں پر بھی تھی۔ آج بھی بات کرنے والے پرانی فلموں میں اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے۔دلچسپ کہانی، خوبصورت میوزک اور کمال کی اداکاری۔ دو فلموں پر خصوصی گفتگو کی گئی تھی ان میں سے ایک کا نام زندہ لاش تھا، جس کا نام سنتے ہی میری پہلی نظر مجھ پر ہی پڑ گئی اور مجھے پورا یقین ہو گیا کہ مصنف میرے جاننے والا ہے اور اس نے مجھے بڑے ہی غور سے دیکھا ہے اور میری ذات کی ہو بہو عکاسی کردی ہے۔ میں دیکھنے کو چل پھر رہا ہوں، کھاپی رہا ہوں، سوچ بچار کر رہا ہوں، بات وات اور وہ بھی اپنی ذات سے کررہا ہوں اور دیکھنے کو زندہ ہوں ویسے میں دنیاوی مقام و مرتبے کے لحاظ سے اندھا ہو چکا ہوں اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے، میں روزانہ کی بنیاد پر تھوک کے حساب سے زہر کھا رہا ہوں، بات بات پر اپنے ہم جنسوں سے جھگڑ رہا ہوں۔ غیر تو غیر ہیں میرے تو اپنے بھی میرے دشمن ہو چکے ہیں۔میں اپنی کٹیا کو اپنے ہی ہاتھوں آگ لگا چکا ہوں بنیادی طور پر میں جیتے جی مر چکا ہوں، تو پھر بولو کیا میں واقعی زندہ لاش نہیں ہوں، جس کا زمانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ دوسری فلم کا نام تھا عورت راج۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ مہاراج زندہ لاش ہے اور تمام اختیارات کا مرکزو محور مہارانی ہے اور یہ بات ہم سب نے سب کو بتانی ہے بصورت دیگر وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ آؤ خاموشی سے زندگی گزارتے ہیں نہیں تو رنگ میں بھنگ پڑ جائے گا اور بھنگ بھی منشیات کی ایک شکل ہے اور یہ بھی جرم قابل ِ دست اندازی پولیس قرار دیا جا چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈر کے مارے سارے ملنگ کہیں چھپ گئے ہیں نہ ہاؤہو نہ دھمال اور نہ ہی ڈھول ڈھمکا۔ اللہ الحمرا آرٹس کونسل کی رونقیں آباد رکھے۔ یوتھ اور جنون بالکل علیحدہ علیحدہ۔ آدم و حوا کے بیٹے بیٹیوں کا جم غفیر۔ یہاں یوتھ مصروف بھی ہے اور زیر تربیت بھی ہے۔ تعلیم بہت ضروری ہے اور تربیت اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ میرے ساتھ مشتاق احمد خان ثانی، عبدالحق مشتاق، افتخار الحسن نومی،سرمد وقار اور جاوید بھٹی بھی ہیں ان سب کا بھی یہی خیال ہے اور ڈاکٹر یاسر اور ان کے ہمنشینوں نے ہمارے خیال کو یقین میں بدل دیا ہے اور ہم حق الیقین کے مقام و مرتبے پر فائز ہو گئے ہیں اب تو ہم نے بس پورے صدق اور یقین کے ساتھ جابر بن حیان کے کام کو آگے بڑھانا ہے تاکہ سائنس کے میدان میں بھی ہم سرخرو ہو جائیں امید ہے میرا اور ڈاکٹر مارتھ کا مکالمہ بابت مسلمان اور سائنسی علوم ایک دن رنگ لائے گا۔
ایک وقت تھا جب مدارس میں سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ جیسا کہ معروف سائنسدان جابر بن حیان امام جعفر صادق کے مدرسہ سے فارغ التحصیل تھے۔ ابن الہیثم، ابوبکر الرازی، ابن سینا, محمد بن موسی خوارزمی، البیرونی، الکندی، ابوالحسن طبری، ابن النفیس، ابوالقاسم زہراوی، علی بن العباس، القلیدس، عمر خیام وغیرہ سائنسدان اور مفکرین بھی تو مدارس کے ہی فارغ التحصیل تھے۔ مامون الرشید کا قائم کردہ بیت الحکمت ایک تحقیقاتی ادارہ تھا۔ یہ سارے مدارس اس وقت کی مشہور جامعات تھے۔ وائے پھر تقلید کا دور آیا۔ سوچ بچار ختم۔ مشاہدات اور تجربات دماغ کی کھڑکیوں میں مقفل۔ آنکھوں پر جہالت اور گمراہی کے ککرے، بلکہ جالے بنے گئے اور ہم سب لکیر کے فقیر بن گئے اور فقیر دربدر ہوگیا اوپر سے آوارہ کتے اس کے پیچھے لگ گئے۔ ع۔ آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا۔ فرقہ واریت نے تو ہمارے سوچ بچار کرنے والے لوگوں کو بھی متنازعہ بنا دیا بلکہ ان پر طعن و تشنیع کے تیروں کی بارش کردی گئی اور اختلاف رائے کی پاداش میں تکفیر کے فتوے اور پھر عدالتی فیصلے۔ حیرت زدہ معاشرہ اور سکوت کا عالم۔ سائنسی میدان مکمل طور پر غیر مسلموں کے حوالے اور ہم غیرضروری بحث و تمحیص میں الجھ کے رہ گئے ہیں۔ اب بھی ہم سب پر یہ لازم ہے کہ ہم اللہ تعالی کے احکام پر عمل کریں اور کائنات ارض وسما پر غوروفکر شروع کردیں یہی سائنس کی عمارت کی پہلی سیڑھی ہے اور پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا مشکل ہوتا ہے پھر تو قدم آگے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر قدم سے قدم ملانا پڑتے ہیں۔ یہی زندہ ہونے کی دلیل ہے اور اسی طرح تسخیر کائنات کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔
٭٭٭٭٭