پی آئی سی زندہ باد۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پائندہ آباد

  پی آئی سی زندہ باد۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پائندہ آباد
  پی آئی سی زندہ باد۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پائندہ آباد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہمارے دوست سعید جاوید نے بہت خوب بات کی کہ پاکستان میں آج کل پانچ کاروبار بہت منافع بخش ہیں۔ان میں پرائیویٹ ہسپتال، پرائیویٹ تعلیمی ادارے، پیری مریدی،سیاست۔ مجھے اس بات کی سچائی کا اندازہ اس وقت ہوا جب 22اکتوبر 2024ء بروز منگل کی شام مجھے باامر مجبوری ایک پرائیویٹ ہسپتال "کیولری ہسپتال "میں داخل ہونا پڑا۔کیونکہ میرا سینا درد اور تکلیف کی وجہ سے پھٹا جا رہا تھا۔چونکہ پی آئی سی تک پہنچنا میرے لیے ممکن نہ تھا،اس لیے اسی ہسپتال کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کی ایڈوائز اور پے درپے انجکشن لگنے کے باوجود درد کی شدت کم نہیں ہورہی تھی۔ ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر بھی وہاں موجود تھے۔بعد میں فیصلہ ہوا کہ مجھے آئی سی یو میں لے جایا جائے۔آئی سی یو میں جیسے ہی میں پہنچا تو دونوں جانب مشینیں ورکنگ پوزیشن میں آگئیں۔ڈرپ بھی لگ گئی، جس سے ایک گھنٹے کے بعد مجھے کچھ سکون میسر آیا۔ایک طرف مجھے اپنی بیماری کا احساس تھا تو دوسری جانب پرائیویٹ ہسپتال کے بل سے بھی ڈر لگ رہا تھاکہ اس کی ادائیگی کیسے ہو گی؟اگلی دوپہر جب ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر مجھے چیک کرنے آئے تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے چھٹی کی درخواست کر دی کہ میرے بیٹے پرائیویٹ ہسپتال کے اخراجات برداشت نہیں کرسکیں گے،اس لیے مجھے ڈسچارج کردیا جائے۔ ڈسچارج تو میں ہوگیا لیکن اس کے اتھ ہی 40ہزار روپے کا بل بھی مجھے تھما دیا گیا۔جسے دیکھ کر میرے بیٹے بھی سوچ میں پڑ گئے۔بہرکیف وہاں سے فارغ ہوکرمیں گھر پہنچے۔ آدھا  دن اور ایک رات سکون سے گزری۔اس دوران میں نے پی آئی سی کے ایم ایس شعیب اسلم صاحب سے موبائل پر بات کی۔ انہوں نے اسی وقت آنے کے لیے کہہ دیا لیکن میں اور میرا بیٹا شاہد جمعرات کی صبح پی آئی سی پہنچے تو انہوں نے آؤٹ ڈورجانے کی ہدایت کردی۔جب ہم وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ایک ہجوم آؤٹ ڈور میں موجود تھا، ای سی جی کروانے کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔پھرہم ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں ایک ڈاکٹرصاحب موجود تھے، ان کے ارد گرد آٹھ دس لوگ کھڑے ان سے گفتگو فرما رہے تھے،جب میں  نے اپنی فائل ان کے سامنے رکھی تو وہ گفتگو بھی کررہے تھے اور کبھی قریب ہی رکھے ہوئے موبائل کا مسیج بھی پڑھنے لگتے، اسی حالت میں انہوں نے میری فائل پر سرسری نگاہ ڈالی اور ایک کتابچے میں ادویات لکھ کے ہمارے حوالے کر دیں۔جب ہم فارغ ہوکر گھر واپس جانے کے لیے نہر پر پہنچے تو یکدم میرے سینے میں پھر وہی درد اٹھا جس نے منگل کی شام مجھے بے حال کردیا تھا، میں نے بیٹے کو پی آئی سی کی ایمرجنسی میں پہنچنے کے لیے کہہ دیا۔ایمرجنسی میں پرچی بنانے کے بعد ہم اس جگہ پر پہنچے جہاں تین چار ڈاکٹر کرسیوں پر تشریف فرما تھے اور وہ باری باری آنے والے لوگوں کو چیک کرکے انجکشن لگا رہے تھے۔ مجھے یکے بعد دیگرے تین انجکشن لگے لیکن درد کی شدت کم نہ ہوئی تو انہوں نے ایک اور انجکشن لگا دیا اور ساتھ ہی سرنج سے میرا خون نکال کر تجزیئے کے لیے لیبارٹری بھیج دیا۔ ایمرجنسی میں 80 بیڈ موجود ہونگے لیکن تمام کے تمام مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔ایک دو گھنٹے کرسی پر ہی بیٹھ کر لیبارٹری رپورٹ کا انتظار کرنے لگا۔شام چھ بجے رپورٹ آئی جو ٹھیک نہیں تھی۔ چنانچہ ایک بیڈ کو خالی کروا کر اس پر مجھے لٹا دیا گیا۔اس ہال میں تین بڑے اے سی چل رہے تھے،جس سے ماحول خاصا سرد تھا، چونکہ ہسپتال میں کمبل یا گرم چادر کا انتظام نہیں تھا اس لیے مجھے گھر سے دو گرم چادریں منگوانا پڑیں۔ جوں جوں رات آگے بڑھ رہی تھی۔غریب اور متوسط طبقے کے بیمار لوگوں کا ہجوم ایمرجنسی میں امڈتا آ رہاتھا۔بیڈ خالی نہ ہونے کی وجہ سے کرسیوں پر ہی ڈرپس اور انجکشن لگائے جارہے تھے۔یہ سلسلہ ساری رات جاری و ساری رہا۔جس کی وجہ سے میں سو نہیں سکا۔مجھے جب بھی پیشاب کی حاجت ہوتی تو میں نرس سے درخواست کرتا کہ وہ ڈریپ اتار لی جائے تاکہ میں آسانی سے واش روم جا سکوں۔مجھے اس وقت افسوس ہوا جب نرس نے ڈریپ اتارنے سے انکار کردیا ایک ہاتھ میں ڈریپ اور اس کا پائپ ہو تو واش روم میں پہنچ کر اطمینان سے کیسے چھوٹا بڑا پیشاب کیا جا سکتا ہے، میں دو دن وہاں رہا اور اسی حالت میں مجھے واش روم جانا پڑا۔ہسپتال کی انتظامیہ کو بطورخاص اس بات کا نوٹس لینا چاہئے اور نرسوں کو تاکید کی جائے کہ وہ مریضوں کو ذہنی پریشانی سے بچانے کے لیے ان سے بھرپور تعاون کریں۔ ایک خوبی نے مجھے بے حد متاثر کیا کہ اس ہسپتال میں مریضوں کو تین وقت بہترین کھانا فراہم کیا جارہا تھا اور کسی مریض کے ہاتھ میں میڈیسن لانے کی پرچی نہیں تھما ئی گئی۔ہر کام خود بخود ہو رہا تھا۔اگلی صبح مجھے بتایا گیا کہ آج آپ کی اینجیو گرافی ہے، آپ ذہنی طورپر تیار رہیں۔شام چار بج گئے لیکن اینجیوگرافی کے لیے کوئی لینے نہیں آیا تو میرا بیٹا ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر انجم جمال صاحب کے دفتر جا پہنچا انہوں نے بہت توجہ سے بات سننے کے بعد اینجیو گرافی ڈیپارٹمنٹ کو کال کرکے ہمارا نمبر لگوایا۔شام چھ بجے میری باری آئی۔جب اینجیو گرافی روم پر نظر ڈالی تومیر ے دل سے ان ڈاکٹر صاحبان اور عملے کے لیے عا نکلی،جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے اس سخت ٹھنڈے اور ریڈیشن سے متاثرہ ماحول میں صبح سے رات تک کام کررہے تھے۔بیس منٹ میں میری اینجیوگرافی ہوگئی جس پر خدا کا شکر ادا کیا۔چونکہ ریڈیشن کی وجہ سے مجھے وہاں ساڑھے دس بجے تک رکنا تھا۔پھر گیارہ بجے رات ہم نے اپنے گھر آکر سکھ کا سانس لیا۔لیکن یہ خوف مجھ پر طاری رہا کہ رپورٹ صحیح ہے یا نہیں۔ اگلے دن ہفتہ تھا،اچانک گھنٹی بجی۔میں باہرنکلاتو کوریئر والے نے مجھے سیل ڈبہ تھما کر دستخط کروائے۔ اس ڈبے پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور میاں نواز شریف کی تصویریں آویزاں تھی جس پر لکھا تھا۔ ”وزیراعلیٰ پنجاب کا انقلابی پروگرام۔مفت دوا آپ کی دہلیز تک“۔سچی بات تو یہ ہے اس لمحے بے ساختہ میری زبان سے "مریم نواز کے لیے دعا نکلی کہ کاش باقی سرکاری ہسپتالوں میں بھی مریضوں کی اسی طرح مدد کی جائے، جتنا پی آئی سی ہسپتال کی جانب سے تمام مریضوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ میرے استاد مرتضیٰ شیرازی صاحب مجھے مسلسل کہہ رہے تھے کہ عمرکے آخری حصے میں بائی پاس آپریشن جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے رسک نہ لیں۔چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ کسی عام ڈاکٹرکو رپورٹ دکھانے کی بجائے ہر دلعزیز شخصیت ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر انجم جلال صاحب ہی کو دکھاؤں۔ پیر کی صبح جب میں اور میرا بیٹا ان کے آفس پہنچے تو انہوں نے انتہائی خوش اخلاقی اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری تمام رپورٹیں اور اینجیوگرافی کی رپورٹ بھی دیکھی اور ایک کتابچے پر اپنے ہاتھ سے ادویات لکھ کر مجھے فرمایا۔دومہینے تک ادویات استعمال کریں پھر مجھ سے رجوع کریں،اگر اس دوران کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاجھجک میرے پاس تشریف لے آئیں۔ہم انسانیت کی خدمت کے لیے ہی یہاں بیٹھے ہیں۔میں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا کہ دوسرے سرکاری ہسپتالوں کی طرح پی آئی سی کے نیچے سے لے کر اوپر تک کسی ملازم، نرس، ڈاکٹر نے مجھ سے ایک پیسہ بھی رشوت نہیں مانگی۔یہ معجزہ بھی آپ کی بہترین قیادت اور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر انجم جلال صاحب جیسے فرشتہ صفت لوگ تمام سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ہونے چاہئیں۔جب میں ان کے کمرے سے باہر نکل رہا تھا تو میری زبان پر بے ساختہ ایک نعرہ تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر انجم جلال زندہ آباد اورمریم نواز پائندہ آباد۔

مزید :

رائے -کالم -