سمجھ لیں تو ہی بہتر ہو گا!
ہمارے اور دنیا بھر کے دانشور حضرات اپنے علم اور معلومات میں توسیع کے لئے مطالعہ کرتے رہتے ہیں،جن کی یہ عادت پختہ ہے ان کے پاس معلومات کا خزانہ بھی ہوتا ہے،میرے جیسے لوگ بھی ان حضرات کی تحریروں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں،ان کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ناولوں اور اب ڈائجسٹوں سے محظوظ ہوتا ہے، معاشرے میں اس کے بعد جو تبدیلی آئی وہ یہ کہ آنہ لائبریریاں ختم ہو گئیں، کتابیں مہنگی ہوتی چلی گئیں،میرے جیسے لوگ اخبارات میں چھپنے والی کتابوں کے اقتبا سات سے فائدہ اٹھائے ہیں اور بازار سے خریداری مجبوراً کی جاتی ہے، جبکہ مہربان کرم فرمائی کرتے اور اپنی تصنیف پر مبنی کتابیں ارسال بھی کر دیتے ہیں۔یوں میں بھی مطالعہ کر لیتا ہوں اور گزارہ ہو جاتا ہے،لیکن جب سے یہ سوشل میڈیا شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے پڑھنے کا یہ کلچر تباہ ہوتا جا رہا ہے اور میں تو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اب کتاب صاحب ِ ذوق حضرات کا شوق ہے،حالانکہ کتب بینی لازم ہے کہ مطالعہ سے ذہنی دریچے کھلتے ہیں،لیکن کیا کِیا جائے کہ زمانہ حال سے سوشل میڈیا کے شائق حضرات کی وجہ سے ان حضرات کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں،جو نہ صرف مواصلات کے اس ذریعے کی ایجاد سے دولت کما رہے ہیں،بلکہ اس ایجاد کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے دنیا میں بسنے والے عوام کی ذہنی کیفیت کو تبدیل کرنے کا عمل بھی کر رہے ہیں۔
میرے آج کے کالم کا یہ موضوع نہیں، یہ ذکر میں نے اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے حالات کی وجہ سے کیا ہے کہ دجال کے پیروکار ایک صفحے پر ہیں اور وہ اللہ کی مخلوق اور اس کی زمین کو اپنے مقاصد کا حصول جانتے اور ظلم کرتے چلے جا رہے ہیں۔فلسطینیوں کی نسل کشی اور قبضہ مہم کے بعد اب لبنان،یمن اور شام تک ان کے پَر پھیل چکے ہیں،جو حضرات اس مطالعہ کے شریک ہیں جس کا اب بھی تعلق آنہ لائبریری سے ہے وہ بخوبی جانتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ اسرائیلی(صیہونی) کن مقاصد کے تحت حملہ آور ہیں اور کسی کی مان اور سُن نہیں رہے،صیہونی یہ سب اکیلے کرنے کے اہل نہیں،اگرچہ ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری میں انہوں نے بھی بہت ترقی کی ہے،لیکن اس کی اصل قوت وہ ممالک ہیں جو اسلامی دنیا کے دشمن ہیں اور اس روئے زمین پر جو اللہ کی پیدا کردہ ہے، اپنا مادری حق جتاتے اور کسی دوسری قوم کو اپنے برابر نہیں جانتے۔ امریکہ،برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت یورپی یونین کے ممالک آج اسرائیل کے پشت پناہ ہیں۔دولت تو صیہونیوں کے اپنے پاس بہت ہے،لیکن ٹیکنالوجی میں امریکہ جیسے ممالک ان کے حصہ دار ہیں اسرائیل کو ممنوعہ اسلحہ تک دیا جا رہا اور اس کے ناجائز عمل کو بھی جائز قرار دے رہے ہیں اور اب تو کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسرائیل اقوام متحدہ، عالمی عدالت اور دنیا بھر کے عوام کی مخالفت کے باوجود اپنے مظالم کو بڑھاتا جا رہا ہے۔
حالیہ صورتحال بالکل سامنے ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔کتوں کے زخم پر تڑپنے والے اور انسانی حقوق کے علمبردار ان ممالک کو فلسطینی،لبنان،شامی اور یمنی انسان نظر نہیں آتے،ہمارے مسلمان بھائی اس خوف کے تحت کہ اسرائیل اور عالمی بڑی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مقابلہ مشکل ہے،زبانی مذمت سے آگے نہیں بڑھ پا رہے، ان سب کو فلسطینی عوام سے پورا پورا سبق حاصل کرنا چاہئے کہ وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے بربریت کا سامنا کر رہے ہیں،خاندان کے خاندان سپردخاک اور جل کر راکھ ہو گئے،اس کے باوجود ان کے جوان اب تک مقابلہ کرتے چلے آ رہے ہیں،یہی صورتحال لبنان اور لبنان میں موجود حزب اللہ کے مجاہدین کی ہے جو اپنے عظیم رہنماؤں کی شہادت کے بعد بھی ہمت نہیں ہار رہے اور ظالموں کے مقابلے پر ہیں،اللہ نے ان کو حوصلہ اور جرأت عطاء کی ہے اور وہ جدید ترین، خطرناک اسلحہ سے لیس ممالک کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کی ثابت قدمی یہ سبق دیتی ہے کہ جب انسان فنا فی اللہ کے مقام پر خود کو پہنچا لے اور اپنے وطن کی سلامتی کے لئے سربکف ہو جائے تو پھر موت کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور اسے کوئی ڈرا نہیں سکتا۔
اس وقت جو حالات ہیں وہ اور کشیدہ ہیں کہ ایران نے طویل صبر کے بعد بالآخر اسرائیل پر راکٹ اور میزائل سازی کر ہی دی اور پہلی باراسرائیل اور اس کے حواریوں کو احساس تو ہوا ہے چاہے یہ منفی ہے اور ایران ہی کو دھمکایا جا رہا ہے، لیکن یہ حضرات ایک بڑی ہستی کو بھول جاتے ہیں، جس نے یہ زمین بچھائی اور اس پر انسان کی نسل بڑھائی، اللہ کی وہ ذات کسی بھی لمحے مجاہدین کے حق میں فیصلہ کر سکتی ہے اور مخالفین کا سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔بلاشبہ ایران اور طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں کم تو انا نظر آتا ہے لیکن قیادت کا عزم کمزور نہیں ہے، یوں بھی اس کا رقبہ غزہ جیسا نہیں،اس کی زمین زیادہ ہے اور وہ حملے روکنے کے لئے اپنی گہرائی کو نعمت خیال کرتے ہیں۔بلاشبہ ایران کے پاس فضائی قوت،اسرائیل اور امریکہ جیسی نہیں، لیکن قیادت اور عوام میں جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اِس لئے ان کو زیر کرنا ممکن نہیں ہو گا۔بلاشبہ امریکی حکمت عملی کے تحت غزہ والوں کو اکیلا کیا گیا اور پھر حملہ کر کے ان کی نسل کشی شروع کی گئی ہے، لیکن ایران کی مداخلت بھی کسی سے کم نہیں ہے اور ایران نے میزائل ٹیکنالوجی میں بھی بڑی ترقی کی ہوئی ہے اس لئے مقابلہ تو کیا جا سکتا ہے۔یوں بھی حکمت عملی ہی کے تحت ایران نے حملہ کیا اور حکمت عملی اس طرح ترتیب دی کہ امریکی عنایت اور خود امریکہ کا دفاعی نظام بھی پسپا ہوا اور ایرانی میزائل نے اپنے نشانے پر ضرب بھی لگائی۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا اور اب بھی گذارش کرتا ہوں کہ ہم مسلمانوں کو غور کرنا ہو گا اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی اکرمؐ نے جو فرمایا اس کو پیش ِ نظر رکھنا ہو گا، ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا اور تائب ہونا ہو گا، اللہ سے گناہوں کی معافی مانگ کر سیدھی راہ پر آنا ہو گا ورنہ یہ تو لکھی بات ہے کہ دجال کی آمد سے پہلے ایسے لوگوں کی آمد ہو گی جو بظاہر تو مسلمان ہوں گے لیکن اندر سے دجال ہی کے پیرو کار ہوں گے،ان حالات میں دنیا میں مسلمانوں کو یکے بعد دیگرے تین شکست ہوں گی اور دجال ظاہر ہو جائے گا، جس کے بعد حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد اور ظہور اور پھر فتح ہو گی۔
میری گذارش یہ ہے کہ ہم اس روز کا انتظار کیوں کریں؟ ہمیں اپنے اعمال درست کرنا اور خود اپنے اندر بھائی چارہ اور اتحاد پیدا کرنا ہو گا،حکمران ہوں یا حکومت سے باہر کے حضرات سب کو اپنے مفادات چھوڑ کر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہو گا اور دشمن کا مقابلہ کرنا ہو گا۔خصوصی طور پر ملک کے اندر امن و استحکام لانا ہوگا۔
٭٭٭٭٭