مشرق وسطیٰ پر لہراتے جنگ کے سائے
سید حسن نصراللہ بھی رخصت ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔انہوں نے جس کاز کے لئے اپنی زندگی وقف کیے رکھی اس کے صائب ہونے کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ وہ سرخرو ہیں‘ کامیاب ہیں۔ ہم جو پیچھے رہ گئے ہیں، ان کا فرض ہے کہ اپنے مقاصد اور نصب العین پر نظر رکھیں۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت دو ماہ کے عرصے میں اُمت مسلمہ کے لئے دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ امسال 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں حملہ کر کے شہید کر دیا گیا تھا۔ دشمن کے دو بڑے وار کامیاب ہو چکے ہیں۔ ضرورت ہے کہ فلسطین کی آزادی اور لبنان کے دفاع کے حوالے سے آگے بڑھتے ہوئے دشمن کے وار سے بھی بچا جائے کہ امت مسلمہ قیادت کے مزید نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر اسی طرح اعلیٰ قیادت کا نقصان ہوتا رہا تو اس کے نتیجے میں فلسطین کی آزادی کا خواب کہیں پیچھے چلا جائے گا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ پر ایک بڑی جنگ کے سائے لہرا رہے ہیں۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات ایران نے اسرائیل پر 400 سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے جس کے نتیجے میں یہودیوں کا کچھ مالی نقصان تو ہوا، لیکن جانی نقصان کی کوئی خبر نہیں آئی۔ اسرائیل کو شاید ایسے جوابی حملے کی توقع نہیں تھی، اسی لئے اب دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز بیانات جاری کیے جا رہے ہیں اور کسی لمحے ایک چھوٹی سی لغزش بھی ایک بڑی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ سے لڑائی میں آٹھ فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں زمینی کارروائیوں کے دوران حزب اللہ سے جھڑپوں میں اس کے آٹھ فوجی مارے گئے ہیں۔ اسرائیل اور لبنان کے گروپ حزب اللہ کے درمیان سرحدی علاقے میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران حالیہ عرصے میں اسرائیلی فوج کو پہنچنے والا یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔اسرائیل نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس کے اسرائیل میں داخلے پر اس لئے پابندی لگا دی ہے کہ انہوں نے اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے کی واضح طور پر مذمت نہیں کی۔ ادھر ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت نہ کرے۔ قطری نشریاتی ادارے کے مطابق انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ہم نے امریکی فورسز کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے سے دور رہیں اور مداخلت نہ کریں۔ یہ رد عمل انہوں نے امریکی صدر کے اس بیان پر ظاہر کیا ہے، جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی ایران کے میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل کے دفاع کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایران کے حملوں کو بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تہران کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران نے ریڈ لائن عبور کر لی ہے، حملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
امریکہ اور مغربی دنیا کی جانب سے جو پیغام ملا وہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ وہ ہر حال میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی ہر طرح سے مدد کے لئے بھی تیار ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں شروع کرنے کا راستہ کس نے ہموار کیا تھا؟ لبنان‘ حزب اللہ‘ حماس‘ اسرائیل اختلافات کے قلابے مسئلہ فلسطین سے ملتے ہیں اور مسئلہ فلسطین ماضی میں شاید کچھ اور ہو،لیکن اب صرف یہ ہے کہ اسرائیل 1967ء کی پوزیشن پر واپس چلا جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونے دے تو اس کے وجود کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ معاہدہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں 1993ء میں طے پایا تھا اور اس پر فلسطین کی قیادت کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے کئی مسلم ممالک کی حمایت بھی شامل تھی، لیکن مشکل یہ ہے کہ اسرائیل 1967ء کی پوزیشن پر واپس جانے کے لئے تیار نہیں اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور پالیسیوں پر مسلسل عمل پیرا ہے، کیونکہ اسے دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں بسانا ہے اور اس کے لئے اسے زیادہ سے زیادہ رقبے اور جگہ کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت وہ فلسطین کی سرزمین ہتھیا کر پوری کر رہا ہے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1993ء میں جو اوسلو معاہدہ طے پایا تھا‘ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر بسے یہودیوں کی تعدادایک لاکھ 10ہزار تھی، لیکن آج 31 سال بعد یہ تعداد 70 لاکھ سے تجازو کر چکی ہے۔ جب آپ کسی کو پیچھے دھکیلتے دھکیلتے دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہیں تو اس کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ حماس اور حزب اللہ کو یہ راستہ اختیار کرنے پر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور امریکہ اور اس کے حامیوں کی جانب سے اسرائیل کی بے جا جانبدارانہ حمایت، امداد اور اقدامات نے مجبور کیا ہے۔
اس وقت جب مشرق وسطیٰ میں ایک خوفناک جنگ کے سائے لہرا رہے ہیں تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلا لیا گیا ہے۔ اچھی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس کیا کرے گا؟ زیادہ سے زیادہ ایک قرارداد پاس کرے گا اور بس۔ سب سے پہلے تو امریکہ‘ جس نے اب تک اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی زیادہ تر قراردادوں کو ویٹو کیا ہے، اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دے گا اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا، یعنی قرارداد پاس ہو بھی جاتی ہے تو اگلا سوال یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کون کرے گا یا کرائے گاکیونکہ اس سے پہلے بھی اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور عزائم کے خلاف کئی قراردادیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے منظور کی جا چکی ہیں، جن کو ماننے سے اسرائیل یکسر انکار کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے حق میں جو ویٹو پاور استعمال کی جاتی ہے دراصل وہی جانبداری ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے تحفظ کے لئے جو اسلحہ اور امداد فراہم کی جاتی ہے دراصل وہی جانبداری ہے اور جب تک یہ جانبداری ختم نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو مشرق وسطیٰ پر منڈلاتے جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر پائیدار امن قائم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔