خواتین جائیں تو جائیں کہاں؟

خواتین جائیں تو جائیں کہاں؟
خواتین جائیں تو جائیں کہاں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آپ اس راستے سے جاتی ہی کیوں ہیں؟ گھر آنے جانے کے لیے کوئی رکشہ لگوا لیں‘  گھر سے چادر لے کر نکلا کریں یا برقع پہنیں، 
اس کے باوجود اگر کوئی اوباش آپ کا پیچھا کرتے گھر تک پہنچ جائے تو پھر بھی قصور لڑکی کا ہی نکلتا ہے کہ یہ گھر سے باہر کرنے کیا گئی تھی۔۔ ایسے حالات میں خواتین جائیں تو کہاں جائیں؟ 
عوامی مقامات پر کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ  ہراسانی کا  واقعہ رونما ہوتا  رہتا ہے پاکستان کی بیشتر خواتین ایسی ہیں جو عوامی مقامات پر اس قسم کی ہراسانی کا سامنا کر چکی ہیں۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے عوامی مقامات خواتین کے لیے جائے ممنوعہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر بے حیائی کپڑوں سے پھیلتی ہے تو ایک سال کی بچی کا ریپ کیوں ہوتا ہے ۔ اگر موڈرنزم اس کی وجہ ہے تو ایک معمولی گھریلو ملازم کا ریپ کیوں ہوتا ہے؟؟  اگر برقعہ پہننے سے عزت محفوظ رہتی ہے تو اسی عزت کو تار تار کرنے والے ہاتھ کونسے ہوتے ہیں؟  اگر اپر کلاس  وڈیرے ہی اس قسم کی حرکات کرتے ہیں تو سڑکوں ، بسوں، چوک چوراہوں پر کون کھڑا ہوتا ہے؟؟کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ سب کسی ایک کلاس کا ایک طبقے کا نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے ہر اس  عورت  کا مسئلہ ہے جو یہ سب برداشت کر رہی ہے اور اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی میری ایک دوست کا کہنا تھا  کہ ’مجھے کئی مرتبہ ہراساں کیا گیا ہے حالانکہ میں برقعہ پہنتی ہوں۔‘   جب وہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی اور گھر سے یونیورسٹی تک بس پر آتی جاتی تھی۔ ایک روز جب 15 نمبر گیٹ سے باہر نکلی تو سامنے کھڑے ایک رکشے میں ڈرائیور بس سٹاپ پر کھڑی لڑکیوں کو دیکھ کر نازیبا حرکات کر رہا تھا ۔
ایک دن گیٹ پر موجود گارڈ سے شکایت کی تو گارڈ بولا کہ ’تو آپ اس راستے سے جاتی ہی کیوں ہیں؟ بس سٹاپ پر مت کھڑی ہوا کریں اور گھر آنے جانے کے لیے کوئی رکشہ لگوا لیں۔‘
’لڑکیوں کو ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے چپ ہو جاؤ۔ گند میں ہاتھ ڈالنے سے انسان خود گندا ہوتا ہے۔ ایسے واقعات پر خواتین کو زیادہ تر خاموش رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔فیلڈ میں کام کرتی ہوئے کئی خواتین کو آج بھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ نے سر پر دوپٹہ نہیں لیا، کیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، آپ جیسی لڑکیوں کی وجہ سے بے حیائی پھیلتی ہے وغیرہ وغیرہ

عوامی مقامات مردوں کے علاوہ عورتوں کے لیے بھی ہیں پر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں خواتین کو ہراساں نہ کیا جاتا ہو، ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ عورتوں کو ہراساں کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ بازار میں چلے جائیں تو آتے جاتے کئی مرد آپ کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں، سڑک پر ہم چل نہیں سکتے دو قدم چلیں تو آوازیں کسنا شروع کر دیتے ہیں۔ عورتیں جائیں کہاں۔ کسی مجبوری کے تحت عورت گھر سے اکیلی باہر نہیں جا سکتی کیونکہ کسی مقام پر وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتی
ایک بار کالج سے گھر کے لیے نکلی تھی تو میرے ساتھ میری کزن کے علاوہ اور بھی دوستیں موجود تھیں ۔ میری کزن اچانک ڈر کر میرے ساتھ لگ گئی جب اس کے ڈرنے کی وجہ جانی تو میں حیران رہ گئی  کیونکہ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا اور سائڈ پر گاڑی روک کر اس میں بیٹھنے کے لیے کہہ رہا تھا ۔ میں نے پہلے سوچا کسی اور کا انتظار کر رہا ہے اور اسے بلا رہا ہوگا لیکن جیسے ہی میری باقی   دوستیں اپنے سٹاپ کی بس میں بیٹھ کر چلی گئی تو اس نے گاڑی ہمارے پاس لا کر روکی اور دروازہ کھول کر کہنے لگا آجاؤ۔ یہ دیکھ کر میرا تو دماغ کام کرناچھوڑ گیا اور کافی سنائی کہ اپنی عمر دیکھ بڈھے اور حرکتیں دیکھ ، وہ سنتا ہی وہاں سے بھاگ گیا۔
میرے خیال میں عورت جس بھی عوامی مقام پر ہو، وہ محفوظ ہو۔ ہر جگہ آرام سے جا سکیں، جو ہمارا بنیادی حق ہےلیکن ہمارے معاشرے میں بیشتر مرد چاہتے ہیں کہ عورت گھر کے کسی کمرے میں بند ہوکر رہے جو ناممکن ہے ، صرف مرد ہی نہیں، عورتیں خود دوسری عورت پر تنقید کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔۔ 
اگست میں مینارِ پاکستان پر 400 سے زائد افراد کے ہجوم نے ایک خاتون کے ساتھ دست درازی کی تھی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے ستمبر تک پنجاب بھر میں کل 20 ہزار 500 سے زائد ایسے جرائم رپورٹ ہوئے جن میں خواتین جنسی یا جسمانی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
خواتین کے حوالے سے درج ان مقدمات میں تقریباً 39 ہزار 500 کے قریب ملزمان ملوث تھے۔ ان میں ساڑھے 15 ہزار سے زائد وہ ملزمان ہیں جنھوں نے خواتین کو اُن کی مرضی کے خلاف شادی کرنے اور اُنھیں زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنے کی غرض سے اغوا کیا تھا۔
اب تک درج کل مقدمات میں سے 8450 مقدمات میں پولیس نے تفتیش مکمل کر کے چالان متعلقہ عدالتوں میں جمع کروا دیا ہے جبکہ 6600 مقدمات تاحال زیر تفتیش ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسی دورانیے میں 5900 کے قریب مقدمات مختلف وجوہات کی بنیاد پر خارج ہوئے
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 354 (عورت کی شائستگی کو مجروح کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ یا مجرمانہ طاقت کے استعمال) کے تحت جنوری سے ستمبر تک پنجاب میں خواتین کو ہراساں کرنے کے کُل چار ہزار سے زائد مقدمات رپورٹ ہوئے ہیں۔خواتین پر تیزاب پھینکے کے کُل 24 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں کُل 40 کے قریب ملزمان میں سے بھی کسی ایک کو سزا نہیں مل سکی۔ونی کے ایک مقدمے میں ملوث 10 ملزمان کو بھی تاحال سزا نہیں مل سکی۔ آخر کب تک عورت اپنی تعظیم  سے محروم رہے گی ؟

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

.

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -