آج مناسب سپیڈ ورک کی ضرورت ہے
ویسے تو ”تاریخ پر تاریخ“ کے الفاظ ہمارے نظام عدل و انصاف کے حوالے سے اکثروبیشتر زیربحث آتے ہیں اور بحث و تمحیص تو خیر ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے اوپر سے ہم سب کو اَنا کے بچھو نے کاٹ کھایا ہے اور ہم سب ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کی کوشش میں ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ ہر کوشش کار گر ثابت نہیں ہوتی ورنہ ہمارا انجام کیا ہوتا۔ اللہ اپنی امان میں رکھے۔ اب اگر جان کی امان پاوں تو تاریخ کے بارے میں کچھ عرض کرتا ہوں میں ایک تاریخ کا طالب علم ہوں اور تاریخ کو ہر شخص اپنے انداز سے لیتا ہے۔ کچھ کے نزدیک تو یہ محض قصے کہانیاں ہیں بعض کا خیال ہے کہ اب ہمیں ان تاریخ کے بھنبھل بھوسوں سے آگے نکلنا ہوگا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی تاریخ سے اتنے بدظن ہیں کہ اگر ان کو موقعہ مل جائے تو وہ ایسی کتابوں کو آگ لگا کر اپنے خوفناک ماضی کی سب دستاویزی شہادتیں ختم کر دیں۔ ہمارے ہاں وہ لوگ بھی موجود ہیں، جن کو اپنی تاریخ پر بہت ہی فخر ہے اور آخر پر واقفان حال ایسے بھی ہیں، جن کے نزدیک آج کے جملہ مسائل کی وجہ ہمارا تاریخ سے منقطع ہونا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کل کے فیصلوں کے انجام کی بنیاد پر آج کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اگر گزرا ہوا کل ہی ہمارے ذہنوں سے مٹ جائے گا تو آنے والے کل کی خیر منائیں اور بکرا کب تک اپنی خیر منائے گا۔ ہم نے بکرے کی قربانیاں تو دے کر دیکھ لی ہیں کاش ہم اپنی اَنا کو قربان کردیتے تو سب مل بیٹھ کر آنے والے کل کو تابناک بنا سکتے تھے، لیکن اس طرح تو ہماری ناک کٹ جائے گی اوپر سے ہم ایک آزاد قوم ہیں اور آزادی کی حدودوقیود کا بھی ابھی تک ہم نے تعین کرنا ہے۔ ہم ویسے تو امریکہ سے ہر لحاظ سے مستفید ہوتے ہیں کاش ہمیں امریکہ والے یہ بھی فرمادیتے کہ جہاں ایک شخص کی ناک شروع ہوتی ہے وہاں دوسرے شخص کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ آزادی کا ایک جامع تصور تو ویسے قرآن میں بھی موجود ہے اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر۔
کامیابی کا ایک یہ بھی راز ہے کہ ہم سب کی نظر تاریخ پر ہونی چاہئے۔ ابھی ایک دودن پہلے میری تاریخ پیدائش تھی۔ سوشل میڈیا کا بھلا ہو یہ سب کی نظریں تاریخ پیدائش پر لگا دیتا ہے اور اب سب اخلاص اور محبت کا مظاہرہ بھی سوشل میڈیا پر ہی کر دیتے ہیں۔ نہ پھولوں کی ضرورت اور نہ ہی کیک ویک خریدنے کی نوبت۔ ہیپی برتھ ڈے اور پھر ہیپی برتھ ڈے۔ دعائیں ہی دعائیں اور اگر اللہ تعالیٰ ساری دعائیں مانتے ہوتے تو ہم سب کو عمرِ خضر نصیب ہو جاتی۔ پہاڑی علاقوں کے لوگ بڑے تنو مند اور مضبوط ہوتے ہیں اب ہم نے بہت کچھ کھا پی لیا ہے اب ہمیں پہاڑوں پر بار بار چڑھنے کی ضرورت ہے، لیکن ہم کوہ قاف کی تلاش میں ہیں اور کوہ مذکور سوئی بن گیا ہے اور اوپر سے ہماری آنکھوں پر بھی متعدد قسم کے ککرے چڑھ چکے ہیں۔ ہم ٹک ٹاک کو ہی اپنے جملہ مسائل کا حل سمجھ بیٹھے ہیں ہمارا اس سلسلے میں کوئی قصور نہیں،کیونکہ مذکورہ کام گھر میں بیٹھے بٹھائے ہوجاتا ہے۔ تسیں اپنے گھر اسیں اپنے گھر اور اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہی آج کی اہم ضرورت ہے اور ضرورت پوری کرنے کے لئے سرمایہ چاہئے اور سرمائے کی ٹریل دینا اتنا بھی آسان کام نہیں ہے دیگ کے چند چاول چکھ کر ذائقہ کی بابت معلوم کیا جا سکتا ہے۔ معلوم اور نامعلوم میں نا کا فرق ہے اور بیڑہ غرق ہو اس نا کا جس نے چھوٹی چھوٹی بات پر ہماری ناک کٹوا دی ہے اور اب ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے اور اوپر سے دنیا نے ہمیں منہ وکھالی تو دینی نہیں ہے پھر پریشانی کس بات کی ہے۔ چپ کر کے اپنی برتھ ڈے مناتے ہیں اور خوش خوش رہتے اور ساری دنیا کو خوش خوش رہنے کا مشورہ دیتے ہیں افسوس خوش خوش رہنے کا مشورہ دینے والے بھی اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر آبدیدہ ضرور ہوگئے ہوں گے۔ ہم محض آنسو ہی تو بہا سکتے ہیں اور یوں دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں اور اگر دل اور دماغ شل ہوجائیں تو دماغ کو سوچنے پر مجبور کرنا ضروری ہے اور سوچنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے، کیونکہ وقت کا بیشتر حصہ ہم نے توتکار میں ضائع کردیا ہے اور آخری خبریں آنے تک بحث جاری ہے۔
پروفیسر نعیم مسعود ایک دانشور، کالم نگار اور ادیب ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک وضعدار اور نفیس انسان بھی ہیں اوپر سے ان پر لاہور کا مکمل رنگ چڑھ چکا ہے۔ لاہور کے لوگ خوشیاں شیئر کرتے ہیں،جونہی انہوں نے میری برتھ ڈے کا سنا تو تقریب منعقد کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور ارادے جن کے پختہ ہوں اور نظر جن کی خدا پر ہو وہ کیک کاٹ یا کٹوا کر ہی دم لیتے ہیں۔ ان کے اصرار پر میرا ان کے ہاں جانا ٹھہر گیا، حالانکہ میں سارا دن مذکورہ ڈے کی مبارک بادیں وصول کرکر کے مکمل طور پر تھک چکا تھا اور اوپر سے میرا مورال اس لئے بھی ڈاؤن تھا کہ افسوس میری زندگی کا ایک سال اور کم ہو گیا ہے مزید میری ریٹائرمنٹ بھی ان ڈیز کے منانے کی بدولت قریب آرہی ہے۔ کل کیا بنے گا جب میری گھنٹی بجانے پر چپڑاسی نہیں آئے گا بلکہ گھنٹی ہی نہیں ہو گی۔ گھومنے والی کرسی کی بجائے وان والی چارپائی اور وہ بھی پکی پیڈی ”بہہ جا چپ کر کے“ اور پھر گھر کی رکھی سکھی۔ خیر کل کس نے دیکھی ہے آج تو کیک کاٹتے ہیں اور وہ بھی تالیوں کے شور شرابے میں۔ پروفیسر مذکور نے انتہائی مختصر، مگر خوبصورت بیٹھک کا بندوبست کیا ہوا تھا اور یہاں جینڈر ڈسکیمینیشن بالکل نہیں تھی اور خیالات کے اظہار کے مواقع سب کو یکساں میسر تھے۔ تاہم سب سے زیادہ باتیں انہوں نے کیں یا پھر میں نے بھی گپیں لگائیں شاید مہمان اور میزبان کا استحقاق ہوتا ہے باقی مہمانوں نے اپنے اپنے انداز سے اس محفل میں رنگ بھردیا۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل،پروفیسر ڈاکٹر شازیہ قیوم اور پروفیسر عاشق ڈوگر جیسے علمی اور تحقیقی میدان کے نمایاں نام اور ہم بے نام۔ محفل کا رنگ ہی تو اصل چیز ہوتا ہے اور اللہ رنگ میں بھنگ نہ ڈالے۔ پروفیسر نعیم مسعود نے حافظے کو بہتر بنانے کا بھی ٹوٹکا بتایا ان کے بقول ایک شاگرد نے اپنے استاد سے کہا کہ اس کا حافظہ کمزور ہوگیا ہے اور اس کو کچھ یاد نہیں رہتا شاید یہ شاگرد بھی ہماری طرح بھلن ہار تھا۔ استاد نے کھجوریں کھانے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ کھجوروں کا کچھ حصہ ہڈیوں کو فائدہ دے گا کچھ گوشت بڑھائے گا اور باقی مجموعی طور پر جسم کو توانا بنائے گا اور جب جسم توانا ہو تو دماغ کام ٹھیک کرتا ہے۔ آج بھی ہماری قوم کے جسم کو مجموعی طور پر ایسی خوراک کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا دماغ پورے طور پر کام کرنا شروع کردے ہمیں پرانی چیزیں یاد آجائیں اور ان کی بنیاد پر ہم آئندہ کے فیصلے کریں۔ مجھے برتھ ڈے کے کھپ کھپیا سے یہی پیغام ملا ہے کہ ہمیں بیتے دنوں پر زیادہ مغموم اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بس آنے والے دنوں کے بارے میں مناسب سپیڈ ورک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والا کل ہمارے آج سے بہتر ہو۔