مریم نواز کی پہلی کامیابی

کامیابی وہ ہوتی ہے جسے آپ کے مخالفین بھی تسلیم کریں۔پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز اگرچہ بہت سی کامیابیاں حاصل کر چکی ہیں لیکن اُن کی پہلی کامیابی جسے اُن کے مخالفین بھی تسلیم کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ انہوں نے 70برس میں پہلی بار تجاوزات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش کی اور وہ کام کر دکھایا جو ابھی تک پنجاب کا کوئی وزیراعلیٰ نہیں کر سکا تھا۔
مریم نواز کے بارے میں کوئی شخص اگر یہ بات کہتا ہے کہ وہ موروثیت کے راستے سے میدان سیاست اور ایوان اقتدار میں داخل ہوئی ہیں تو میں کہوں گا کہ وہ بالکل غلط کہتا ہے۔سبب اِس کا یہ ہے کہ میں اِس بات کا گواہ ہوں کہ مریم نے سیاست کا باقاعدہ عملی درس لیا ہے اور یہ کہ وہ عطائی ہرگز نہیں بلکہ اکتسابی علم سیاست سے بہرہ مند ہوئی ہیں۔آج سے پندرہ بیس برس قبل اسی وقت میرا ماتھا ٹھنکا تھا جب مریم نواز کو پنجاب کے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تقریبات میں بھیجا جانے لگا تھا۔وہ جس بھی تقریب میں جاتیں، وہاں عصرِحاضر کے مسائل و مصائب پر بغیر پرچی کے گفتگو کرتیں اور خوب داد حاصل کرتیں۔نئی نسل سے گفتگو اور مکالمے نے انہیں بہت کچھ سکھایا۔پھر جب نواز شریف کے آبائی حلقے سے محترمہ کلثوم نواز کو الیکشن لڑوایا گیا تو انتخابی مہم چلانے میں وہ پیش پیش رہیں۔میرا اپنا غریب خانہ بھی اِسی علاقے میں ہے۔تب مریم نواز کی گاڑی کی پچھلی نشست پر میرے دوست اور نہایت عمدہ کالم نگار رؤف طاہر براجمان ہوا کرتے تھے جو آج دنیا میں موجود نہیں۔ رؤف طاہر جب بھی مریم نواز کے ساتھ کرشن نگر اور سنت نگر آتے تو مجھے پہلے ہی اطلاع دے دیا کرتے تھے۔وہ مجھے بتا دیا کرتے تھے کہ مریم نواز صاحبہ کہاں کہاں رُک کر ووٹروں سے ہم کلام ہوں گی۔ ایک بار میری درخواست پر وہ مریم نواز کو عین میرے غریب خانے کے دروازے پر لے آئے۔
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے،غم گسار چلے
مریم نواز کی آمد کی خبر سنتے ہی علاقے کی خواتین اُمنڈ آئیں۔مریم نے اُن سے اُن کے مسائل دریافت کیے۔میری بھی رؤف طاہر صاحب نے مریم سے ملاقات کرائی تھی۔اک کا شیریں لہجہ آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔
رُکے تو چاند چلے تو ہواوں جیسا ہے
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا ہے
انہی دنوں حمزہ شہباز بھی جلسوں سے خطاب کیا کرتے تھے۔وہ بولتے تھے تو اُن کے منہ سے شعلے نکلتے تھے لیکن مریم ذرا دھیمے لہجے میں خطاب کیا کرتی تھیں۔مجھے لگتا تھا کہ اِس خاتون میں ٹھہراؤ ہے۔بات کرنے سے پہلے کچھ غور بھی کرتی ہے۔ تب میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ محترمہ مریم نواز حمزہ شہباز کی نسبت زیادہ کامیاب سیاست دان ثابت ہوں گی۔پھر وقت نے یہ بات ثابت بھی کر دکھائی۔حمزہ شہباز بطور وزیراعلیٰ اپنا رنگ نہ جما سکے جبکہ مریم نواز نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر کے خود کو منوا لیا ہے۔اب اُنہیں رؤف طاہر کی ضرورت نہیں رہی۔وہ سارے فیصلے خود کرتی ہیں۔وہ اپنے ویژن کے تحت ہر قدم اٹھاتی ہیں اور جو کہتی ہیں اُس پر عمل کر کے بھی دکھاتی ہیں۔کراچی کے ایک تاجر نے تو چند روز قبل ایک لیگی لیڈر کی موجودگی میں یہاں تک کہہ دیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو آپ پنجاب لے جائیں اور مریم نواز کو کچھ دنوں کے لیے سندھ بھیج دیں۔ کسی کی کارکردگی پر اِس سے بڑا تبصرہ کیا ہو سکتا ہے؟
یوں تو مریم نواز نے بطور وزیراعلیٰ کئی بڑے کام کیے ہیں جن میں دھی رانی پروگرام اور اپنا گھر اپنی چھت لائق ذکر ہیں لیکن مجھے اُن کے جس کام نے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا وہ تجاوزات کا خاتمہ ہے۔ہمارے ہاں جس طرح ہر ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے اور اپنی ساکھ بگاڑتا ہے اسی طرح ہم عام لوگ بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور صوبے کے بازاروں، چوکوں چوراہوں اور سڑکوں کا حسن مجروح کرتے ہیں۔دکاندار اپنا مال اسباب دکانوں کے باہر رکھ کر بیچنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں،اور نہیں تو اپنی دکان کے سامنے دو چار پھٹے لگوا دیتے ہیں اور غریب لوگوں سے سرکاری زمین کا کرایہ وصول کرتے ہیں۔اِن تجاوزات کے خاتمے کے لیے ہر حکومت کوشش کرتی رہی ہے لیکن سرکاری مشینری اِس کوشش کو بھی اپنی کمائی کا ذریعہ بناتی رہی ہے۔ مقامی حکومتوں کے ملازم دکھاوے کے لیے آتے،دو چار جگہ توڑ پھوڑ کرتے یا سامان اُٹھاتے اور چلے جاتے۔شاید دکانداروں سے منتھلی بھی لے جاتے ہوں لیکن یہ الزام میں اِس لیے نہیں لگا سکتا کہ میرے پاس اِس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی میں اِس کا چشم دید گواہ ہوں۔ایک بار لاہور کے نہایت سخت گیر ڈی سی او احد خان چیمہ نے بھی تجاوزات کے خاتمے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بھی اِس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے تھے۔
مریم نواز نے صوبے کے ہر ضلعے کی انتظامیہ کو مستقل اور عارضی تجاوزات کے خاتمے کے لیے ایک ماہ کا ٹارگٹ دیا۔اُن کا حکم چونکہ دوٹوک تھا اِس لیے اِس بار تجاوزات کا خاتمہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔اُن کے سیاسی مخالفین بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔ پنجاب کے ہر شہر میں پچاس،پچاس سال سے قائم تجاوزات کو یوں ختم کیا گیا ہے کہ اب شاید دوبارہ قائم نہ کی جا سکیں۔دکانوں کے باہر اپنا سامان رکھنے والے تاجر تو شاید یہ چوٹ برداشت کر لیں لیکن چھابڑیوں، پھٹوں اور رہڑیوں پر رکھ کر سامان بیچنے والے غریب لوگوں کے لیے یہ عمر بھر کا دکھ ہے۔اُنہیں کاروبار کے لیے متبادل جگہ فراہم کی جا رہی ہے۔ہر شہر میں ماڈل ریڑھی بازار بنائے گئے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ تجاوزات کے خاتمے سے بے روزگار ہونے والے ہزاروں لوگ تاحال متبادل بندوبست کے منتظر ہیں۔اگر اُن کے سر پر دست ِ شفقت نہ رکھا گیا تو یہ لاوا کسی اور شکل میں پھٹ سکتا ہے۔