جلال الملک خادم الحرمین الشریفین سے التجاء

علی بابا اور 40 چور من گھڑت اساطیری داستان ہی سہی، لیکن حکمت سے بھری ہے۔حکایات سعدی بھی تو کچھوے اور بچھو کی گفتگوجیسی الل ٹپ حکایات سے بھری پڑی ہے جہاں چوروں کا سردار، علی بابا کے گھر مہمان بن کر گیا تو درخواست کی کہ کھانے میں نمک نہ ڈالنا۔ علی بابا کی بیوی یا کنیز مرجینا نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا۔ سمجھ گئی کہ چوروں کا سردار کسی واردات پر آیا ہے اور ہمارا نمک حرام نہیں کرنا چاہتا۔ سینہ بہ سینہ سفر کرتی یہ الف لیلیٰ، رتن ناتھ سرشار کے ہاتھ آئی تو ”ہزار داستان“ کہلائی۔ بھلے الل ٹپ ہی سہی، یہ سبق ضرور سکھاتی ہے کہ جس کا نمک کھاؤ اس سے وفا کرو۔ نمک کھاؤ تو حلال کرو بھلے 40 چوروں کے ساتھ سونے کے ذخائر لوٹنے کو نکلو۔ اپنے سیانوں کا فرمان ہے، جس کا کھاؤ اس کا گاؤ، اس محاورے، روز مرہ یا پوٹھواری خان کی چبھن یا تیکھا پن چھان کر الگ رکھ دوں تو بھی چوروں کے سردار کی اطاعت واجب ہو جاتی ہے۔ نمک حرام کبھی نہ بننا یا جس کا کھاؤ اس کا گاؤ۔
عالی مقام شہنشاہ معظم! کچھ ایسے ہی دلکش اقوال کی دھنک کے سہارے زندگی گزری۔ چنانچہ آنجناب شہنشاہ معظم جلال الملک نے اپنے والدین کے ایصال ثواب کی خاطر نادار سعودیوں کے لئے ہاؤسنگ پراجیکٹ کا آغاز کیا تو سینکڑوں افراد کی اس متبرک تقریب میں شہنشاہ معظم نے مجھ واحد غیر عرب خاکسار کو اپنی شفقت سے سرفراز فرمایا۔ شہنشاہ معظم، اس خاکسار نے وہاں آپ کا نمک ہی نہیں کھایا، گھنٹہ بھر آپ کے ساتھ بیٹھ کر نکیلے نمکیلے قہوہ بھرے فنجان بھی لیے پیے تھے۔ ایک دو نہیں، پورے پانچ دن شہنشاہ معظم نے مجھے اپنی میزبانی سے سرفراز فرمایا تھا۔
ریاض کے شاہی محل میں آپ کا نمک تو کھایا سو کھایا، چلی سے سائیریا تک کے انوکھے اور رنگا رنگ پھل بھی پہلی بار خوب کھائے۔ عمرہ زیارات کا تو مذکور ہی کیا، دم رحلت خدام نے ریال بھرے موٹے لفافے سے میری مالی نقاہت دور کرنے کی سعی بھی کی۔ حضرت عالی مقام ان ریالات سے مجھے اپنے پسینے کی بو باس نہ ملی تو میں نے وہ لفافہ کہیں اِدھر اُدھر کر دیا۔ خاطر جمع رکھیے، صدقات کی کوئی ایک نوع نہیں ہوتی۔ ثواب ہم دونوں کو ملے گا۔ شہنشاہ عالی مقام، یوں نمک تو رہا ایک طرف، اتنی عنایات کے بعد بھی کوئی آپ سے وفا نہ کرے تو توبہ ہی بھلی۔ یقین جانیے، یہ خاکسار اب آپ کا بندہ بے دام ہے۔
انسانی حقوق کے پہلے اور آخری عالمگیر چارٹر خطبہ حجتہ الوداع میں حکم ہے کہ تحفے کا بدلہ دیا کرو۔ عالی مقام، مخمصہ یہ ہے کہ خاکسار مذکورہ نعمتوں کے بدلے میں آپ کو دعاؤں کے سوا اور کیا دے سکتا ہے۔ آقا و مولا کے ایک اور فرمان کا سہارا لے رہا ہوں: ایک دوسرے کو تذکیر (یاد دہانی) کرتے کراتے رہا کرو۔ ہاں تو عالی مقام یاد ہے نا، جگ جگ پہلے حرف کاف و نون پر کھڑی اس بے کراں کائنات پر خالق نے اپنی حاکمیت (sovereignty) اپنی رعایا کو دان (suzerenity) کرنا چاہی تھی۔ ارض و سما میں سے کسی کا بسواس نہ ٹھہرا۔ دیو ہیکل پہاڑ سہم کر رہ گئے۔ کہکشاؤں، نیبولوں، بلیک ہولوں، سپر نووں اور دیگر بالشتیوں کا کیا ذکر، سبھی سناٹے میں آگئے، لیکن حضرت جلال الملک، ہم سب نادان جاہل انسانوں نے معلوم نہیں کیوں کانٹوں بھرا یہ تاج اپنے سر پر رکھ لیا (احزاب 72)۔ چلیے کوئی بات نہیں، وہ ہماری اجتماعی نالائقی تھی، لیکن شہنشاہ معظم، اصل بات تو آگے کی ہے۔
تذکیر کرانے کے ساتھ عالی مقام جلال الملک، مجھے آپ پر بے پناہ ترس بھی آتا ہے کہ بوجھل امانتوں کو تو ہم سب نادانوں نے مل کر اٹھالیا تھا، جلالہ الملک، آپ تو اس سے بھی آگے کے ذمہ دار ہیں۔ ان امانتوں کے مرکز اور اس کائنات کے دارالخلافے میں یہاں کے پریزیڈنٹ سیکرٹیریٹ۔۔۔بیت اللہ۔۔۔ کے آپ ہی تو متولی ہیں۔ ایک بیت اللہ ہی پر کیا موقوف کہ با خدا دیوانہ باش، کوئی بات نہیں۔ عالی مقام جلال الملک با محمد ہوشیار کا کیا کیا جائے گا کہ جن کا فرمان ہے کہ مشرکین اور یہود کو جزیرہ العرب سے نکال باہر کرو۔
عالی مقام جلال الملک،آقا و مولا کا یہ فرمان ازراہ تبرک نہیں ہے۔ یہاں تو ایک تزویراتی (strategic) اصول بتایا گیا ہے اور اتنی بات عام عرب کیوں نہیں سمجھ پا رہا، یقینا آپ سمجھتے ہوں گے۔ آپ کے نزدیک اس کا کوئی جواز بھی ہوگا، لیکن عالی مقام میں تو نہیں سمجھ پا رہا۔ اسی لئے آقا کے فرمان کے مطابق تذکیر کا سہارا لے رہا ہوں۔ حضرت عالی، مقام ماضی میں جو ہوا سو ہوا کہ جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اسرائیل کو نظر انداز کر دوں تو بیروت لبنان کا کیا جواز نکالوں۔ زیادہ نہیں صرف 60سال قبل غیر ملکی یہود اور مشرکین سے بھرا یہ شہر آج کے دبئی کی منظر کشی کیا کرتا تھا۔ الہامی ہدایت نظر انداز کرکے یہ شہر اور یہ ملک جو کھنڈر بننا شروع ہوا تو آج اس کا ملبہ اٹھانے والا ٹھیکے دار بھی نہیں ملتا۔
بتدریج بت خانہ بنتا جزیرہ العرب(عالی مقام میری مراد سعودی عرب نہیں ہے الحمدللہ کہ درجن بھر دیگر ریاستیں بھی تو ہیں) ممکن ہے, دنیا دار عربوں کے نزدیک صرف سیال سونے کی دنیا ہو۔ ہو سکتا ہے، ان کے خیال میں یہاں محض ریت کے ٹیلے ہوں۔ ممکن ہے، یہ لوگ اسے صحرائے گوبی کی طرح ایک دوسرے صحرا پر قیاس کرتے ہوں، لیکن حضرت عالی مقام، یہ جزیرہ العرب لک بھگ دو ارب مسلمانوں کے لئے کائنات کا مرکز ہے۔ یہاں اللہ کا گھر ہے۔ یہیں اسی جزیرہ العرب میں ہمارے آقا و مولا محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما ہیں۔
حضرت عالی مقام ہمارے جسم و جاں سے بھی زیادہ قیمتی ان اثاثہ جات کے ہم سب مسلمانوں کی طرف سے آپ ہی امین اور آپ ہی متولی ہیں۔ ریاستی اور حکومتی اسرار و رموز ہم عامی لوگ بھلا کیا جانیں، لیکن آپ سے التجا تو کر سکتے ہیں۔ یہی ایک التجا ہے کہ عالی مقام حرمین شریفین دونوں کے تقدس پر حرف نہ آنے دیجیو۔ آنکھوں سے تو نہیں دیکھا،لیکن خبریں دینے والوں سے معلوم ہوا کہ حجاز مقدس کی آب و ہوا میں کچھ آلودگی در آئی ہے، خصوصاً آب کا ذائقہ تو بالکل ہی بدلا بدلا بتایا جاتا ہے۔ خبریں دینے والے بالعموم جھوٹے ہوا کرتے ہیں۔ اللہ کرے، یہ خبر غلط ہو۔
شہنشاہ معظم، میں تمام باشندگان سعودی عرب، عالم عرب اور بلاد المسلمین کے لئے دُعا گو ہوں کہ اللہ کریم انہیں امن کی نعمت سے سرفراز فرمائے۔ باشندگان سعودی عرب پر اللہ کریم کی شفقت ہو کہ یہیں پر کائنات کے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوابیدہ ہیں۔ اے خبردار! کوئی ان کی نیند میں خلل پیدا نہ کرے۔ شہنشاہ معظم، اس ایک بات کا ضرور خیال رکھیو۔ رہا بیت اللہ، تو سرکار کے دادا نے کہا تھا نا: ”مجھے میرے اونٹوں سے غرض ہے، گھر والا اپنے گھر کی حفاظت خود کر لے گا“ شہنشاہ معظم، بس یہی ایک التجا ہے کہ آقا کی نیند میں خلل واقع نہ ہونے دینا۔ بدون علم نجوم بتائے دیتا ہوں کہ ورنہ قیامت سے پہلے قیامت آ جائے گی۔
٭٭٭٭٭