آئین پر شب خون کس نے مارا ، تخت الٹنے کی ریت کب بدلے گی ۔۔۔؟
آئین پر شب خون مارنے کو 46 برس ہو گئے۔۔۔کیا یہ المیہ تھا یا نہیں ؟
اورلائن کیسے کٹ گئی ۔۔۔90 دن 11 برس تک کیسے پھیلے ؟۔۔۔” مگر کیوں؟“
5جولائی1977ءرات پونے 2 بجے کا وقت کی وہ رات ” سیاہ رات“ تھی یا نہیں ۔۔۔۔فیصلہ اب ہو جانا چاہیے
آج 5جولائی ہے ، جو لوگ مارشل لاءکے دور کو بھول بیٹھے ہیں انہیں بہت کچھ یاد کروانے کا دن ہے۔۔۔
آج کے دن ملک میں ٹوٹی پھوٹی جیسی بھی جمہوریت تھی اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا اسے یاد کرنے کا دن ہے۔۔۔۔
مفلوک الحال جمہور کیساتھ کیا سلوک کیا گیا اسے یاد کرنے کا دن ہے۔۔۔۔
اب یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ 5جولائی 1977ءکو جمہوریت کا تختہ کیوں الٹا گیا ؟
”آپریشن فیئر پلے“کیا تھا ۔۔۔کیوں تھا ۔۔۔اس کے نتائج کس کے حق میں بہتر نکلے ۔۔۔؟
5جولائی کوجمہوریت کے لیے یوم سیاہ منانا چاہیے یا نہیں
ایک ہی جماعت اس روزکو 1977ءسے کیوں یوم سیاہ کے طور پر مناتی چلی آ رہی ہے ؟ کیوں آئین کی بالادستی اور تحفظ کا عزم کرتی ہے؟
کون پوچھے گا یہ سوال ۔۔۔؟
کیا ہوا تھا 5جولائی 1977ءکو ۔۔۔؟ آئیے نوجوان نسل اور آج کی سیاست کے” شوقینوں“کو تھوڑا یاد کرواتے چلتے ہیں، تاریخ کے جھرونکوں میں لیے چلتے ہیں ۔۔۔۔
اس دن ملک میں مارشل لاءکا اعلان کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ کہتے ہوئے تحلیل کیا گیا کہ یہ اقدام ملک کو انتخابات کے بعد ہونے والی بدامنی سے بچانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ اس کارروائی کو ”آپریشن فیئر پلے“ کا نام دیا گیا تھا۔
اس اعلان کے بعد تقریر میں کہا گیاکہ مداخلت کی واحد وجہ جمہوریت کی بقا ءکو یقینی بنانا ہے اور اس بات کا عزم کیا گیا کہ 90 دن میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت وزیر اعظم تھے، ان کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کیسے تھے ۔۔۔۔اچھے تھے یا برے ۔۔۔سب ایک پیج پر تھے یا نہیں ۔۔۔۔یہ تمام سوالات بھی پوچھے جانے چاہئیں
بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ بھٹو نے 1971 میں اقتدار میں رہنے کے بعد سے” 2 بغاوتوں“ کو ناکام بنایا تھا۔ اگرچہ وہ مارچ کے انتخابات کے بعد حزب اختلاف پاکستان نیشنل الائنس (نیپ) کے ساتھ معاہدہ کرنے والے تھے، اور اس پر 5 جولائی کو دستخط کئے جانے تھے، لیکن مارشل لاءکا اعلان کردیا گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”5 جولائی اچانک نہیں آگیا تھا۔ یہ انتخابی عمل اور عوامی رائے کی پامالی کا فطری نتیجہ تھا جو دورِ استبداد اور دورِ ستم کے بعد ظہور پذیر ہوا تھا۔ جس کا راستہ خود اپنے ہاتھوں سے ہموار کیا گیا تھا“۔
اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل الائنس آف پاکستان دونوں کے رہنماؤں کو ابتدائی طور پر تحویل میں لیا گیا تھا، تاہم مارشل لاءکے نفاذ کے بعد انہیں رہا کردیا گیا، بعد ازاں بھٹو کو ”قتل کے الزام میں“ گرفتار کیا گیا اور 1979 ءمیں قصوروار ٹھہرا کر پھانسی دیدی گئی۔
وعدے کے مطابق 90 دن میں انتخابات کراوئے جانے تھے۔ لیکن جب انتخابات ہوئے تو 90 دن کی جگہ تقریباً 90 ماہ گزر گئے۔ اور ایک ریفرنڈم بھی ہوا، جو 11 سالہ دور حکمرانی کا سبب بنا۔
”مجھے اپنی والدہ کی چیختی ہوئی آواز آئی ،”جلدی اٹھو! کپڑے بدلو،
ACoup ؟ مگر کیوں؟“
میری والدہ کا چہرہ پیلا پڑرہا تھا۔ پولیس کا ایک سپاہی چھپتے چھپاتے ہمارے ذاتی ملازم عرس سے سرگوشی میں کہتا ہے،”صاحب کو اطلاع دو، انہیں مارنے آرہے ہیں۔“
میرے والد عرس سے کہتے ہیں”میری زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے“۔
اس دوران فون کال آ تی ہے۔ معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے،”سر مجھے یہ کرنا پڑا۔“
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ”دخترِ مشرق“ میں 4 اور 5 جولائی 1977ءکی شب کے بھیانک لمحات کو یاد کرتے ہوئے بہت کچھ لکھا ۔۔۔ کن کن شخصیات کی فون کالز آئیں ۔۔۔کس نے کیا کہا ۔۔۔کس نے معذرت کی ۔۔۔؟ سب کے نام بی بی شہید نے بتائے اور لکھے ۔۔۔ہمیں یہاں لکھنے اور بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔خودبی بی شہید کی تحاریر اور ان کے بارے میں لکھی گئی کتب پڑھیں اور حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کریں ۔۔۔جمہور کو اتنی” مشقت “ تو کرنی ہی چاہیے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اگر جمہوریت چاہیے تو پڑھیں اور سبق سیکھیں ۔۔۔
بہرحال آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جب بی بی یہ الفاظ لکھ رہی تھیں تو اس وقت ان کی عمر صرف 24 سال تھی اور پھر یہیں سے ان کی طویل نظر بندی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
5 جولائی 1977ءکو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر 4 اپریل 1979ءکو ان کو پھانسی لگنے کے بارے میں سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں کالم لکھے جاچکے ہیں۔ان پرمزید تبصروں یا تنقیدی بحثوں میں الجھے بغیر بس” ایک جملے “میں حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں تو بھٹو صاحب کو پھانسی دینے والے بینچ کے رکن جسٹس نسیم حسن شاہ اپنی کتاب میں یہ” اعتراف“ کر چکے ہیں کہ ”اس فیصلے کے لیے مجھ پر بڑا دباؤ تھا اور میں اس پر نادم رہوں گا“۔
سابق جسٹس نسیم حسن شاہ کے علاوہ 5جولائی کو سمجھنے کیلئے یہ کتابیں بھی ضرور پڑھیں ۔۔۔
سب سے زیادہ شہرت یافتہ کتاب مولانا کوثر نیازی کی”اور لائن کٹ گئی“
پروفیسر غفور احمد کی کتاب”پھر مارشل لا آگیا“
5 جولائی کی شب کا آنکھوں دیکھا حال اس وقت کے آئی جی حاجی حبیب الرحمٰن کی کتاب”کیا کیا نہ دیکھا“ میں بھی ملتا ہے۔ حاجی حبیب الرحمٰن کی کتاب دراصل ایک طویل انٹرویو ہے جو ممتاز صحافی منیر احمد منیر نے ہفتوں کی نشست میں مکمل کیا تھا۔ حاجی حبیب الرحمٰن کی سنسنی خیز گفتگو ان تمام ہنگامہ خیز دنوں کا احاطہ کرتی ہے۔
مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب میں بہت کچھ لکھا ، بس 3سطریں ملاحظہ فرمائیں
”بابا جان، کچھ آدمی چھت پر چڑھ آئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔
میں نے پوچھا،شوٹ کرنا ہے یا گرفتار کروگے؟
سر۔۔۔گرفتاری چاہیے“
گرفتاریاں آج بھی ہو رہی ہیں ۔۔۔۔اور نا جانے کب تک ہوں گی
کاش یہ سلسلہ ختم ہو سکے ۔۔۔۔
جمہور نے یہ سب دیکھا اور سہا ۔۔۔ جمہوریت کے لئے کی گئی جدوجہد کو کس نے بچایا اور کس نے پامال کیا۔۔۔
بعض نے اس دن کو ”یومِ نجات “ کے طور پر منایا اور بعض نے ”یوم سیاہ “۔۔۔۔
جمہور نے سب دیکھا۔۔۔۔
ملک نے سب کو بھگتا ۔۔۔کس کے دور میں کیا ہوا ۔۔۔کیا کچھ نہیں کیا گیا ۔۔۔ مذہبی انتہا پسندی، منشیات اور کلاشنکوف کلچر ۔۔یہ کیسے ملک میں پلے بڑھے ۔۔۔سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے ، شاہی قلعے کے دیواروں کو سیاسی کارکنان کے خون سے رنگا گیا۔۔۔ غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں ۔۔۔
ذاوالفقار علی بھٹو کو بھی ملک چھوڑنے کی پیشکش کی گئی تھی، انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے موت کو گلے لگانے کو ترجیح کیوں دی ؟
یہ سب جمہور نے دیکھا ۔۔۔
تختے الٹنے کی ریت کب بدلے گی ۔۔۔؟
یہ سب سوال پوچھے جانے چاہئیں ۔۔۔ان کے جواب بھی ملنے چاہئیں ۔۔۔
اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ ۔۔۔ قومی مفاد کی خاطر کوئی فیصلہ کریں
آج ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ۔۔۔۔ قومی مفاد کی خاطر کوئی فیصلہ کریں۔۔۔ضرور کریں ۔۔۔۔اور یہ فیصلہ سب کریں
آخر میں فیض احمد فیض کی ایک نظم کا کچھ حصہ ( مکمل نظم پیش نہیں کی جا سکتی )
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والئی ماسوا، نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
وہ معصوم جو بھولے پن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہوگئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہوگئے ہیں
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں