”آپ کے اپنے تو چھ بچے ہیں“

”آپ کے اپنے تو چھ بچے ہیں“
”آپ کے اپنے تو چھ بچے ہیں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کچھ عرصہ پہلے تک خاندانی منصوبہ بندی پربہت زور دیا جاتا تھا۔ ہرہسپتال میں خاندانی منصوبہ بندی کیلئے علیحدہ شعبہ جات قائم کئے گئے۔ لوگوں کوقائل کرنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی۔ایک ڈاکٹرصاحب نے ایک نئے جوڑے کو ”بچے دو ہی اچھے“ پرمفصل اورمدلل لیکچر دیا۔ دونوں قائل ہوگئے اور فیصلہ کیاگیاکہ ڈاکٹرصاحب کی بات پر عمل کریں گے۔ ان کاتعلق دیہات سے تھا، مگر انہوں نے پختہ ارادہ کرلیاکہ اپنا خاندان دو تک ہی محدود رکھیں گے۔جاتے جاتے خاتون نے معصومانہ لہجے میں ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا”آپ کے اپنے کتنے بچے ہیں؟“۔ جواب ملا ”چھ“۔خاتون جاتے جاتے رُک گئیں۔ قدرے دل شکستہ لہجے میں کہنے لگیں ”ہمیں توآپ کہتے ہیں کہ بچے دو ہی اچھے اور آپ کے اپنے چھ بچے ہیں“۔ڈاکٹرصاحب نے نہایت تحمل سے جواب دیا”بہن!  چھ ہوں گے تو دو اچھے نکلیں گے“۔ایک ڈاکٹرصاحب تشخیص کے ماہر تھے۔اُن کی ڈیوٹی جب شعبہ بیرونی مریضاں لگتی تووہ مریضوں کوجھٹ پٹ فارغ کردیتے۔ ایک دن ایک صاحب آئے۔کافی دیراپنے امراض گنواتے رہے۔آخرکارکہنے لگے ”جب بھی ٹھنڈا پانی پیتاہوں تو گلہ خراب ہوجاتا ہے۔ کھانسی بھی لگ جاتی ہے“۔ ڈاکٹرصاحب نے نسخے پرفقط اتنا لکھا ”ٹھنڈاپانی مت پیاکریں“مریض کوباہرجانے کا اشارہ کیا۔ مریض باہرتو چلا گیا مگر ساری زندگی ڈاکٹرصاحب کو بھی لوگوں کے دِل سے باہر نکالنے کافریضہ رضاکارانہ طورپرسرانجام دیتا رہا۔ میڈیکل کالج کے ایک طالب علم کے والد کی حسرت تھی کہ اُن کی بہو بھی ڈاکٹر ہو۔بیٹے کی اپنی ایک ہم جماعت کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہوگئی۔

دونوں نے فیصلہ کیاکہ تعلیم مکمل کرتے ہی شادی کرلیں گے۔ہمارے دوست کے والد کوبڑی خوشی ہوئی۔ انہوں نے بیٹے کا جیب خرچ دگنا کر دیا۔نصیب سے کون لڑسکتاہے؟آخری سال ڈاکٹرصاحبہ ناراض ہوگئیں اورکسی اورکے ساتھ شادی کرنے کافیصلہ کرلیا۔ہمارے بھائی کا جیب خرچ مکمل طور پر بند کردیاگیا۔والد صاحب پچھلانقصان پورا کرنے پر تل گئے تھے۔ایک صاحب شکل وصورت کے بہت اچھے تھے مگر پڑھائی لکھائی میں واجبی سے تھے۔ اپنی جماعت کی قابل ترین لڑکی پر عاشق ہو گئے۔ خاتون کی ذاتی ذہانت قابل رشک اورشکل وصورت اُن صاحب کی ذہانت جیسی تھی۔ صاحب اپنے عاشق ہونے کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ کلاس کے پہلے دن محترمہ اُن سے آگے والی قطار میں بیٹھی تھیں۔اُن کے کندھے نظر آرہے تھے۔کندھے اتنے خوبصورت تھے کہ وہ دل ہار بیٹھے۔ایک بے تکلف دوست نے اُن کی تحسین کرتے ہوئے کہا ”آپ نے بالکل ٹھیک کیا کہ محترمہ کے کندھوں پر عاشق ہوئے۔ آپ  جتنے قابل اور محنتی ہیں، اب آپ کا مقام ان کندھوں پر سواری کی وجہ سے ہی بلند ہو گا۔ آپ اب ساری زندگی ان کے کندھوں پر ہی سوار رہیں گے“۔ نشترین کی اکثریت میرتقی میر  کی طرح انتہائی سادہ دل ہوتی ہے۔ میرتقی میرؔ عطارکے جس لونڈے کے سبب بیمار ہوئے تھے، دوا بھی اُسی سے لیتے تھے۔ نشترین کی کثیرتعدادبھی جس ”پپو“ کی بدولت بیمارہوتی تھی،اُسی سے غذا لیتی رہتی تھی۔”پپو“ کے پراٹھے کھانے کے بعد یہ فیصلہ کرنامشکل ہوجاتاتھاکہ پہلے گلہ خراب ہواہے یا پیٹ۔ خراب گلہ یاخراب پیٹ،نشترین کا دل خراب نہیں کرسکتے تھے۔ نشترین دل سے ”پپو“ کو پیار کرتے تھے۔ہوسکتاہے کہیں اُدھارمحبت کی قینچی بھی ہو مگر نشترینز کو جو اُدھاردیتاتھا،وہ اُس سے سچا پیارکرتے تھے۔

اس معاملہ میں ”پپو“ کا پہلا نمبرتھا۔کئی لوگ ڈاکٹر بننے کے کئی سال بعد فرسٹ ائیرمیں کھائے گئے پراٹھوں کااُدھار واپس کرنے آتے تھے۔”پپو“ یار کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ کسی سے تنگ پڑتابھی نہیں تھا۔نشترینز کا ”پپو“ سے پیار کا رشتہ لازوال ہے۔ایک ڈاکٹر صاحب بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ایک دن دیکھنے والوں کوبہت حیرانی ہوئی جب وہ ایک آدمی پر برہم ہورہے تھے۔ وجہ پوچھنے پربتایا ”یہ صاحب رکشہ چلاتے ہیں۔ہفتہ پہلے فیملی کے ساتھ سفر کرناتھا۔گھرسے لاری اڈے تک رکشے والے نے دو سو روپے لئے۔تین دن بعد رات کو واپسی ہوئی۔اڈے سے گھر آنا تھا۔ رکشہ ڈرائیور صاحب یہی تھے جوپانچ سو سے کم میں کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ اب بضد ہیں کہ میں ان کی ہرطرح کی مددکروں“۔ایک طالب علم متحدہ پاکستان کے زمانے سے نشترین چلے آرہے تھے۔ کبھی امتحان نہ دیتے تھے۔نشترکی تاریخ میں امرہوچکے تھے۔ انہوں نے کلینک چلانے سے میس چلانازیادہ مناسب سمجھاتھا۔کئی طلبہ ان کے اس جذبے سے بہت متاثر تھے۔

اس بات پر ان کی تحسین کرتے تھے کہ لوگوں کو کڑوی کسیلی گولیاں اور بدمزاسیرپ پلانے سے بہت بہتر ہے کہ اُن کو عمدہ اورمزے دارکھاناکھلایاجائے۔ اپنی قوم کااصل علاج یہی ہے۔جھنگ کے دو طالب علم اپنے کمرے میں ”لسی“ کابھراہواکولررکھتے تھے۔ ایک دن اُن کے ایک سری لنکن کلاس فیلودوپہر کے وقت ان کے کمر ے میں آئے۔ دونوں طالب علم ”لسی“پی رہے تھے۔سری لنکن بھائی نے سن رکھاتھاکہ ”لسی“‘پینے سے نیند آتی ہے۔ دونوں طلبہ نے اس تاثر کی نفی کی اوربتایا کہ ہمارے ہاں زمیندارسارا دن ”لسی“ پی کرمحنت کرتے ہیں۔ہمارے کھیت کھلیان ”لسی“ کی عظمت کامنہ بولتاثبوت ہیں۔ سری لنکن صاحب اب ”لسی“ کے علاوہ کچھ نہیں پیتے۔وہ سری لنکامیں پاکستان کے سفیر ہیں اور”لسی“ کے اسیر ہیں۔ اسیران ”لسی“ کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے اُن کی کاوشیں جاری ہیں۔ ایک افریقی ملک کے طالب عالم انگریزی میوزک کے بہت شوقین تھے۔ باآواز بلند انگریزی گانے سنتے تھے۔ہوسٹل اُن کے جدیدٹیپ ریکارڈرکی بدولت انگریزی گانوں سے گونجتارہتاتھا۔ساتھ والے کمرے میں رہنے والے مقامی طالب علم ان کی اس عادت سے بہت تنگ تھے۔وہ پنجابی میوزک کے دلدادہ تھے۔ایک دن اپنے افریقی ہم جماعت کے کمرے میں گئے۔مشہورپنجابی گانالگایاجس کے بول ہیں -:


”کالا شاہ کالا،میراکالا اے دلدارتے گوریاں نوں پراں کرو“
افریقی بھائی کو گانے کاترجمہ بھی بتایا۔اچھی طرح سمجھایا۔افریقی ڈاکٹرصاحب اب اپنے ملک جاچکے ہیں۔وہاں بھی وہ ایک ہی گاناسنتے ہیں۔ایک طالب علم پڑھائی کاکچھ زیادہ ہی دباؤ لے گئے۔ اُن سے امتحان میں ایک آسان ساسوال کیاگیا۔وہ ذہنی دباؤ کے باعث کسی اورہی جہان میں پہنچ چکے تھے۔ کہنے لگے ”ہمارے ہاں نہ سوال کرنے کواچھاسمجھاجاتا ہے اورنہ بڑوں کوجواب دینا کوئی قابل تحسین بات ہے۔ مجھے آپ اس سوال جواب سے معاف ہی رکھیں تو اچھا ہے“۔ ایک طالب علم میڈیکل کے علاوہ جملہ آفاقی مسائل پر غوروفکر کرتے رہتے تھے۔ زبانی امتحان کے دوران جب ایک ممتحن نے انفیکشن کی نشاندہی کرنے والے ایک بنیادی فیکٹرکی ویلیوپوچھی تو انتہائی مفکرانہ اورمتفکرانہ لہجے میں گویاہوئے ”آج کے دورمیں انسان کی کوئی ویلیو نہیں۔آپ ای۔ ایس۔ آرکی ویلیوکی بات کرتے ہیں“۔ممتحن حیران رہ گئے۔ طالب علم اس جواب دینے کے بعدکافی دن پریشان رہ گئے۔ پریشانی تب جاکر دورہوئی جب سپلی میں جاکر اُس مضمون کاامتحان پاس ہوا۔ دنیا کوانسان کی ویلیوکاپتہ چلا  یا  نہیں، وہ آج تک ای۔ ایس۔ آر کی ویلیو نہیں بھولے۔ایک طالب علم بہت خوش خوراک تھے۔میس کے اوقات کار دوپہردوسے چاربجے اوررات کوآٹھ سے دس بجے ہوتے تھے۔میس کے دوراینئے میں وہ ہمہ وقت میس میں ہی موجودرہتے تھے۔خوراک کی کوالٹی پرگہری نظر اورپورا ہاتھ رکھتے تھے۔ وجہ یہ بتاتے تھے ”طالب علم بھی توکسی کے بچے ہیں۔یہاں کون سے اُن کے والدین ہیں جوچیک کریں کہ وہ کیاکھاپی رہے ہیں۔میرایہ اخلاقی فرض ہے کہ میں کھانے پینے کے معاملات پرتوجہ دوں۔باقی دوست پڑھائی پر توجہ دیں“۔

مزید :

رائے -کالم -