کبھی کبھی تنہا بھی،عملدرآمد پر توجہ دیں!
لکھنے کے لئے موضوعات کی کمی نہیں،بعض ایسے ہیں جن کے حوالے سے قلم لرزتا ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کو قاری پسند نہیں کرتے،اِس لئے ہر بار سوچ سوچ کر تھک جاتا ہوں اور تازہ موضوع تلاش کرنے میں دِقت ہوتی ہے، جہاں تک ملک میں استحکام اور سیاسی، ملکی اور قومی مفاہمت کا سوال ہے تو اب قلم نے بھی پکار شروع کر دی ہے کہ کب تک تم مجھے گھسیٹتے رہو گے۔یہاں کوئی سننے اور عمل کرنے والا نہیں،اگر ایسا ہی ہوتا تو یہ دن کیوں دیکھنا پڑتے کہ ہر روز مرنا پڑتا،ہر کوئی اپنی دھن میں مست ہے،کسی کو ملک اور عوام کی فکر نہیں،حالانکہ سب کچھ انہی کے نام پر کیا جاتا ہے۔تازہ ترین اور دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ کئی روز تک مذاکرات اور رابطوں کی خبروں کے علاوہ حکمران اتحاد کی طرف سے کھلی دعوت کی اطلاعات اور دعوت کے بعد بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی،بانی نے کہہ دیا تین جماعتوں جو اقتدار میں شامل ہیں، سے بات نہیں ہو گی اور ان کی جماعت کے موجودہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور یہ بات چیت اصل ہیئت حاکمہ سے ہو گی اور اس طرف سے خاموشی ہی اصل جواب ہے جبکہ وہاں سے سربراہ کی آواز گونجی، بس بھئی بس! اب اور نہیں چیف صاحب! اور ساتھ ہی مشورہ دیا،اعلان کیا کہ تم ہی نہیں،آئین کو ہم بھی جانتے اور سمجھتے ہیں۔سو قارئین! بات جہاں سے چلی واپس وہاں آ گئی، یعنی ”پوں چوں کے، کھوتی بوڑھ تھلے“۔
تو قارئین! سوچا کہ اگر قلم گھسیٹ سے کچھ ہو نہیں سکا اور معاملات جوں کے توں ہیں تو پھر اس سکھ بھائی کی حکمت پر کیوں نہ عمل کیا جائے جس نے نہانے کے تین تالاب بنا کر ایک خالی رکھا اور سوال کے جواب میں کہا ”کبھی نہانے کو بھی تو جی نہیں چاہتا،تو آج میری بھی وہی کیفیت ہے لہٰذا آج اِس دِل کو تنہا ہی چھوڑ دینا چاہئے“پھر بھی کالم کا پیٹ بھی تو بھرنا ہے اِس لئے جو بات عرصہ سے کہتے کہتے رُک جاتا ہوں،آج وہی کر لی جائے۔مجھے اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ اب نہیں تو کب،اور اب اس کی طرف سے کچھ کر گزرنے کی جدوجہد ہے۔چچا نے معیشت کی بحالی کا محاذ سنبھالا ہے تو بھتیجی اپنے چچا کی سپیڈ کی پیروی میں بازی لے جانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ بڑے شریف، نواز شریف اس کچھ کر گزرنے کے حوالے سے اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں،حتیٰ کہ وہ اس بار رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسلسل روایت کے مطابق حرمین شریفین بھی نہیں گئے اور حال ہی میں نجی طور پر چین کا پانچ روزہ دورہ مکمل کر آئے ہیں اور اب ملکی امور میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے مہاتما بننے کی بجائے اپنی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کے جذبات کا احترام کیا اور سیاست میں عملی طور پر شریک ِ سفر ہو گئے ہیں،اس کے لئے انہوں نے بڑا قدم اٹھایا اور اپنے رفقاء کی بات مان کر مسلم لیگ(ن) کی صدارت کے لئے رضا مندی ظاہر کر دی ہے اور اب جنرل کونسل ان کو مرکزی صدر چن لے گی، یہ عہدہ اِس وقت اُن کے چھوٹے بھائی محمد شہباز شریف کے پاس ہے،ان کو معاشی بحالی کے مشکل کام کے لئے مزید سہولت دی جا رہی ہے جیسے اسحاق ڈار کو معاون بنا کر حکومتی کاموں میں بھی آسانی پیدا کر دی گئی ہے،اب محمد شہباز شریف کے کام کی سپیڈ اور بڑھ جائے گی۔
یہ سب اپنی جگہ،اب وہ بات بھی کر لی جائے جس کی خاطر یہ تمہید طولانی ہو گئی ہے،میں نے ابتداء میں عرض کیا تھا کہ حکومت نئی ہے اِس لئے ان کو وقت دینا چاہئے کہ یہ ملک و قوم کے لئے کچھ کر سکیں،ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی بھرپور محنت کی اور کرتی چلی جا رہی ہیں۔میں نے تنقید کی بات کی تھی تاہم مسائل کی نشاندہی تو ہمارا فرض ہے،جو کر دی جائے تو ان اکابرین ہی کے لئے بہتر ہو گی جو ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں،اس سلسلے میں گذارش یہ ہے کہ محمد شہباز شریف اور مریم نواز کا ارادہ،اور عزم پختہ ہے۔ سپیڈ بھی تیز ہے اگر کوئی کمی ہے تو عملدرآمد کے جائزے کی ہے کہ یہ قائدین اس دورِ اقتدار میں عوامی بہبود کے لئے جس تیزی سے کام کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے ان کو مجبوراً اسی عملے کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو ماحول میں لتھڑ کر کرپٹ اور کام چور ہو چکا، چنانچہ مفید سے مفید تر کام بھی عمل کے لحاظ سے کوتاہی کا شکار ہے۔ رمضان المبارک میں وزیراعلیٰ نے بہت بڑی ریلیف دی اور اس کی تقسیم کے لئے بھی شفاف انتظام کی بھرپور کوشش اور وکالت کی لیکن وہ اب بھی تحقیق کرا لیں تو ان کو علم ہو جائے گا کہ یہ ریلیف اور اس کی تقسیم کس قدر حقیقی تھی،اسی طرح انہوں نے صفائی کا عزم کیا،بہت حوصلے اور ہمت سے آغاز کیا،ان کو اچھی تصویر بھی دکھا دی گئی،تشہیر سے بھی کام لیا گیا۔ اب عرض یہ ہے کہ اگر وہ یونین کونسل کی سطح پر مسلم لیگ(ن) کے متوالوں کو بُلا کر پوچھ لیں تو ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی کہ کیا ہوا ہے۔ معمول کے مطابق صاف علاقوں کو مزید صاف کر کے اور ایسے مقامات سے کوڑے کے ڈھیر اُٹھا کر جو آتے جاتے نظر آتے تھے، ویڈیو بنا کر تشہیر اور وزیراعلیٰ کو رپورٹ پیش کر دی،اسی طرح لاہور کو سرسبز بنانے کے ٹھیکیدار پی ایچ اے نے بھی شہر کے سبزے میں اضافے اور بہتر شجر کاری کرنے کی بجائے، کینال اور جیل روڈ کو سجا کر مزید ”کمائی“ کی اور شہرت بھی حاصل کی،شجر کاری کی پڑتال سے پول کھل جائے گا،شہر کی پارکیں (ماسوا جیلانی پارک) ابتر حالت میں ہیں۔وحدت روڈ اور ایسی کئی دوسری بڑی سڑکوں کی گرین بیلٹ نجی تعلیمی اداروں اور شادی گھر والوں کے تصرف میں ہیں اور پارکنگ بن چکی ہیں۔
آخر میں اپنا دُکھ کہ سب علاقائی پارک بری حالت میں ہیں،مصطفی ٹاؤن وحدت روڈ کی بڑی گرین بیلٹ چرا گاہ ہے۔ بھینس اور بکریاں سارا دن باری باری لنچ اور ڈنر کرتی ہیں، اندرونی پارکوں کے جنگلے اور اینٹیں تک چوری ہو چکیں،چہ جائیکہ یہ پھولوں والی اور سر سبز ہوں،احمد یار بلاک کی بڑی پارک جہاں ہم دوست سیر صبح کے بعد تھوڑی دیر محفل بھی جماتے ہیں،یہ ماڈل پارک(کاغذات میں) ہے۔اس کا بجٹ کہاں گیا؟کچھ علم نہیں،البتہ پارک کی حالت بہتر نہیں،اس میں موجودہ کوئی بنچ سلامت نہیں، سب ٹوٹ چکے۔ڈائریکٹر جنرل کے پاس کئی عرضیاں کوڑے دان میں پڑی ہیں، کوئی توجہ نہیں۔
ایسی بے شمار مثالیں ہیں،آج اتنا ہی سہی اس گذارش کے ساتھ بات مکمل کہ عملدرآمد والے عملے کا محاسبہ کرنا لازم ہے۔