آسیہ کیس اور اہل مذہب کی خدمت
گستاخی رسول کے الزام میں گرفتار آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے بری کیا تو معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔ ایک طرف مذہب کے نام پر کھڑی جماعتیں اور ان کے حمایت کرنے والے لوگ ہیں جن کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ احتجاج، دھرنے، مظاہرے اور تشدد کا سلسلہ شروع ہواتودوسری طرف کم و بیش باقی تمام معاشرہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی ہی محبت رکھتا ہے جتنی محبت کے دعویدار احتجاج کرنے والے لوگ ہیں۔
پہلے گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کے تحت آسیہ بی بی کو بری کیا گیا ہے۔ دوسری طرف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آسیہ بی بی پر سلمان رشدی یا اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کی طرح اعلانیہ اور تسلسل کے ساتھ کسی گستاخی کا کوئی الزام نہیں۔ یہ ایک خاص واقعہ تھا جو کچھ لوگوں کے بیچ میں پیش آیا۔ دوعورتوں کے سوا اس واقعے کا کوئی گواہ نہیں۔ جب یہ حقیقت ہے تو اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ اس قضیے کا فیصلہ عدالت ثبوت اور گواہی کی بنیاد پر کرے کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔
اب عدالت میں ہوا یہ کہ آسیہ بی بی نے اس الزام کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ گواہوں کے بیانات میں تضادات ہے۔ واقعے کی ایف آئی آر پانچ دن بعد درج کرائی گئی۔ الزام لگانے والی دو خواتین یعنی معافیہ بی بی اور اسما بی بی نے یہ بات چھپائی کہ ان کا آسیہ بی بی سے پانی پلانے کے معاملے پر جھگڑا ہوا ہے۔ جبکہ کھیت مالک محمد ادریس نے اس جھگڑے کو تسلیم کیا۔ مزید یہ کہ اس واقعہ کے وقت موجود پچیس تیس خواتین میں سے کوئی بھی ان دونوں کی تائید میں گواہی دینے پیش نہ ہوئیں۔ ان تمام چیزوں نے شک کو جنم دیا ہے۔ قانون کی روایت ہے کہ جب شک پیدا ہوجائے تو فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔ چنانچہ آسیہ بی بی کو رہا کردیا گیا۔ ان سب کے ساتھ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے کمزور پہلوؤں کو واضح کرتے اسے رد کرنے کی وجہ بھی بیان کی گئی۔
اس لیے ہماری ناقص رائے میں اس فیصلے کے بعد احتجاج اور مظاہرہ اگر ہونا چاہیے تو اس مقدے کے گواہوں کے خلاف ہونا چاہیے کہ انھوں نے عدالت میں متضاد بیانات کیوں دیے یا ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے یہ مقدمہ تیار کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ مذہبی حلقے ہماری اس تجویز کو سنیں گے اور نہ مانیں گے۔ وہ وہی کریں گے جو کر رہے ہیں۔ مگر اب ذرا دل تھام کر اس رویے کے وہ نتائج سنیے جو آنے والو برسوں میں نکلیں گے۔
پچھلی کئی دہائیوں کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بعد یہ معاشرہ پہلے ہی اہل مذہب سے بے زار ہوچکا ہے۔ اس وقت پڑھے لکھے لوگوں کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی لوگوں سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ کسی رشتے کا معاملہ ہو تو سخت مذہبی لڑکے لڑکیوں کا ذکر آتے ہی ان کو ریجکٹ کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں بعض ’’عشاق‘‘ نے گالیوں، بدزبانی اور تشدد پر مبنی ایک نیا مذہبی رجحان متعارف کرا دیا ہے۔
اس رجحان کے ساتھ ایسے کسی موقع پر کیے گئے مظاہروں میں معمولات زندگی کو مفلوج کرنے، تشدد اور جان و مال کے نقصان کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اس کی کوئی اخلاقی اور مذہبی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے گی تو وہ اہل مذہب ہی نہیں بلکہ خود مذہب سے بھی بے زار ہوچکی ہوگی۔ یہ وہ ’’خدمت‘‘ جو مذہب کے نام پر کھڑے لوگ اس وقت سر انجام دے رہے ہیں۔ کاش انھیں احساس ہوجائے کہ کیسا ستم ہے جو یہ مذہب کے نام پر خود مذہب پر ڈھا رہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔