ایل۔بی۔ڈبلیو اور سی ؎اینڈ ڈبلیو

  ایل۔بی۔ڈبلیو اور سی ؎اینڈ ڈبلیو
  ایل۔بی۔ڈبلیو اور سی ؎اینڈ ڈبلیو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 امریکی مصنف کے بقول اقوام عالم میں منفرد نوعیت کے صاحب اقتدار کو کسی کی بے جا استدعا گراں گزرتی تو فائل پر ”ایل۔بی۔ڈبلیو“ لکھ دیتے۔ سائل کی باقی عمر حیرت کی نذر ہوجاتی۔وہ روز کلین بولڈ ہو تا رہتا۔ سرکاری امور کے رمز شناس بتاتے ہیں کہ حکام بالا اگر کسی سائل کی درخواست محکمہ”سی اینڈ ڈبلیو“ کو بھیج دیتے تو سائل عمر بھرمحو سفر ہی رہتا۔ سفر، اردو والا بھی اور انگریزی والا بھی۔ ہمارے لوگ کرکٹ کے'' شوقین'' اور سرکاری حکام کے ”متاثرین“ ہیں اس لیئے ”ایل۔ بی۔ڈبلیو“ اور ”سی اینڈ ڈبلیو“کی قدر و قیمت جانتے بھی ہیں، پہچانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔   

 مغربی ممالک میں ہمیشہ ”تھری ڈبلیوز“کی مانگ رہی ہے۔ بھلے یہ تین ڈبلیوز وومن، وائن اور ویلتھ ہوں یا ورڈز ورتھ، وائلڈ اور و ولف ہوں۔ آج کل   سب کے  ہاں تھری ڈبلیوز یعنی ”ورلڈ وائیڈ ویب“ کا دور دورہ ہے۔ پاکستان کے ٹو ڈبلیوز، وسیم اور وقار نے بھی شہرت کی ماؤنٹ ایورسٹ کو چُھوا مگر ”سی اینڈ ڈبلیو“ کا نہ ہمارے ہاں کوئی مقابل ہے اور نہ ہی وہاں کوئی ہم پلہ۔

پنجاب کی ایک مشہور لوک داستان کے مطابق والدین کی وفات کے بعد دیالو طبیعت کے بڑے بھائی نے اکلوتی گائے کا اگلا حصہ یعنی منہ، گردن، پیٹ چھوٹے بھائی کو دان کردیا اور خود پچھلے حصے ٹانگوں (تھن)پر قناعت کی۔ کئی افراد کو شکوہ ہے کہ چند سا ل پہلے تک”سی اینڈ ڈبلیو“کے  اہلکار بھی ایسے ہی دیالو پن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کمیونی کیشن کسی کے لیئے تھی اور ورکس کسی اور کے لیئے۔ کئی خوش قسمت کمیونی کیشن کرتے کر واتے دوسرے جہان میں ٹرانسفر بھی ہوجاتے تھے۔ ”سی اینڈ ڈبلیو“ کے لوگ مگر دریا د ل ہی نہیں بلکہ ظرف بھی سمندر جتنا رکھتے تھے۔ کوئی”ہی  ہی“ کرے یا”سی سی“، ان کی اعلیٰ ظرفی  اپنی جگہ قائم رہتی تھی۔ دنیا کچھ بھی کہتی تھی،وہ سمندر کی تہہ میں چلا جاتا تھا۔ محکمے کی روٹین میں فرق نہ آتا تھا۔

 لوگوں کے جو بھی جذبات تھے، محکمہ اور ٹھیکیدار ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ وطن عزیز میں ہر دورمیں، ہر طرح کے ٹھیکیداروں کی بہتات رہی ہے۔ عوام کے لئیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن سی اینڈ ڈبلیو کے ٹھیکدار وں کا رُتبہ ہمیشہ ہی سے کچھ سوا رہا ہے۔ ہمارے پیارے انکل سرگم کبھی بھی کسی بھی طرح کے ٹھیکیدار سے خوش نہیں رہے لیکن ”سی اینڈ ڈبلیو“کے ٹھیکیدراوں کے بارے میں ان کی رائے کچھ زیاد ہ  ہی خراب تھی۔ فرما گئے ہیں ؎

''اگر مغلیہ دورمیں ٹھیکہ ہوتا

توآج تاج محل یو ں نہ کھلوتا ہوتا''

”مغلیہ دور کے معمار اور آج کے ٹھیکیدار،'' اس موضوع سے تو کوئی صاحب علم ہی انصاف کرسکتا ہے۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اگر انکل سرگم موجودہ  دور میں ”سی اینڈ ڈبلیو“ کی زیر نگرانی تعمیر کردہ عمارات اور سڑکات دیکھ لیں تو شاید ٹھیکیداروں کے بار ے میں اُن کی رائے بدل جائے۔ کوئی شک نہیں کہ مسائل پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اکیڈمی میں ہمارے اُستاد کہاکرتے تھے ”افسر کے پا س اگر مسئلے کا حل نہ ہو تو پھر وہ بذات خود ایک مسئلہ ہوتا ہے“۔   کئی افسرایسے ہیں جو جہاں بھی تعینا ت ہوتے ہیں،داستان چھوڑ جاتے ہیں۔ چند ایک تو'' داستانیں '' چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے افسر انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں  جو جہاں بھی تعینا ت ہوتے ہیں اپنے نقوش چھوڑجاتے ہیں۔موجودہ سیکریٹری  ”سی اینڈ ڈبلیو“بھی ایسے افسر ہیں۔ اپنی انتھک محنت سے انہوں نے محکمہ”سی اینڈ ڈبلیو“کی عزت و شہرت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ ہمارے اک مہربان، جو ہڈی جوڑ کے ماہر ڈاکٹر ہیں اور جوڑ توڑ کے پرانے کھلاڑی  ہیں، اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتے۔ڈاکٹر صاحب اک دن میرے دفتر تشریف لائے، شدید غصے سے کہنے لگے، ''وزیر اعلیٰ صاحبہ کو ہماری پرواہ نہیں۔ تمہاری سُسرالی ڈویژن کے لوگ بھی بہت ظالم ہیں۔''یارحکومت نے کس شخص کو”سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو“ لگادیاہے۔ جس کو ذرا پرواہ بھی نہیں ہے کہ آرتھوپیڈک  والوں کے بھی بچے ہوتے ہیں اورآٹو موبائل ورکشاپ والوں کے بھی“

میں کم فہم ڈاکٹرصاحب کی عالمَا نہ گفتگو پر غور وفکر کر رہا تھا۔ میراحال اس گورے صا حب جیساتھا جسے وطن عزیز کے ہر دورہ پر حیرت کا دورہ پڑ جاتا تھاکہ یہاں بواسیرکاعلاج سائیکل کو پنکچر لگانے والے کرر ہے ہیں،ذہنی امراض کی دوائی طوطے سے فال نکلوانے والوں سے ملتی ہے،پیٹ کے امراض کی شفا کا نسخہ ریلوے اسٹیشن کے ہربُک سٹال پر دستیاب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اندازہ ہو گیا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا،فرمانے لگے،”کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہر ہسپتال میں ایسے لوگوں کا رش رہتا تھا جو بذریعہ سٹر ک سفر کرنے کی غلطی کرتے تھے۔ ہرسڑک پرہمارے ہسپتال کاریفرل پوائنٹ موجودتھا۔ لاہورتاملتان،اٹک تابھکرہر سٹرک پر جگہ جگہ ایسے مقامات موجودتھے جہاں سے گزرنے و الوں کااگلاپڑاؤ ہمارا ہسپتا ل ہوتاتھا۔تمہیں تو پتہ ہے چھوٹے بھائیوں کی آٹو موبائل کی ورکشاپس کی چین ہے اُن کا کاروبار بھی عروج پر تھا۔جب سے یہ سیکریرٹری صاحب آئے ہیں، دھٹرا دھٹر نئی سڑکیں بنائے جا رہے ہیں،پرانی فٹا فٹ مرمت کیئے جارہے ہیں، مجھے لگا کوئی عمر رسیدہ آفیسر ہوں گے، چار دن کا م کرنے کا بخار،پھر قرار ہی قرار۔ تصویر دیکھی تو پتہ چلا کہ یہ توجوان ہیں بلکہ نوجوان ہیں،اس لیے نو، جوانوں جتنا کام کئے جارہے ہیں اور تو اور ہر چھوٹا بڑا ہسپتال سنورا جا رہا ہے،نکھارا جارہا ہے، اگر سرکاری ہسپتال اتنے خوبصورت ہو گئے تو ہمارے نجی ہسپتالوں میں کون آئے گا؟ ہسپتال ویران ہیں تو ورکشاپس سنسان۔

سنا ہے”عارفوالہ“کہیں۔ توعارفو ں والے کام کریں۔ میں یہ کہنے کی جسارت نہ کرسکاکہ عارفوں والا ہی کام تو کر رہے ہیں۔ عارف کا تو کام ہی خدمت خلق ہے۔ ہمارے سیکرٹری صاحب تو پیدائشی عارف ہیں۔ہم دن بہ دن خود عیب زدہ ہوتے جارہے ہیں، اس لیے کسی کی خوبی کو سراہتے ہوئے ہمیں شاید ذاتی طور پر دکھ ہوتا ہے۔ میرے پسندیدہ مزا ح نگار کے بقول  ”منہ“ پر شکایت اور پیٹھ پیچھے تعریف کرنا مشرقیت کا شیوہ نہیں ہے۔ ہم اپنے ہیروز سے ان کی زندگی میں انصاف بالکل بھی نہیں کرتے، افسر میں بھلے ہزار گُن ہوں بعض لوگوں کے لیئے کسی شخص کا سرکاری افسر ہونا ہی بذات خود اتنابڑا عیب ہے کہ اس کے تمام ہنررائیگاں جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں  لوگوں کی خوبیاں دیکھنے کی بصارت اور بصیرت عطا فرمائے۔ہر اچھا کام کرنے والے کی تعریف کرنے کی توفیق دے۔آمین

ایک شاعر نے شاید ہمارے سیکرٹر ی صاحب کے بارے میں ہی کہا ہے۔   ؎

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے و ہ لوگ 

آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں 

مزید :

رائے -کالم -