کیا اپنے مولانا فضل الرحمن نے تاخیر کردی؟

   کیا اپنے مولانا فضل الرحمن نے تاخیر کردی؟
   کیا اپنے مولانا فضل الرحمن نے تاخیر کردی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا فضل الرحمن کی ذہانت اور ان کی سوجھ بوجھ کو ہر طرف سے داد دی جا رہی ہے اور سب ان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، اس لئے ان کی بعض تلخ باتوں کو بھی شربت کے گھونٹ سمجھتے ہیں ابھی تک ان کی حیثیت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر والی ہے جس کا ان کو بخوبی ادراک ہے جبھی تو انہوں نے فرمایا ہے ”اگر آپ ہماری ضرورت اتنی سمجھتے ہیں تو پھر بات بھی مان لیں“ یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے مصالحت کنندہ کے طور پر کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ملک میں شنگھائی تنظیم کا اجلاس ہونے والا ہے، اس لئے فریقین کو احساس کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف آج (جمعہ) کا احتجاج ملتوی کر دے اور حکومت ترامیم والا معاملہ موخر کر دے، انہوں نے اپنی طرف سے اطمینان دلایا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی حمائت کی“۔

مولانا فضل الرحمن کا یہ فیصلہ اور نصیحت تو مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان والی ہے تاہم مجھے تو ایسا محسوس ہوا ہے کہ ترامیم کے حوالے سے وہ ٹرین نہیں بلکہ فلائٹ مس کر گئے ہیں، اگرچہ برسراقتدار حضرات کی طرف سے ان کی ضرورت کے احساس کا اظہار کیاجا رہا ہے اور عرفان صدیقی نے اسی حوالے سے کہا کہ وہ (مولانا) ترامیم کا مسودہ تیار کررہے ہیں جبکہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مولانا جو مسودہ دیں گے ہم تسلیم کرلیں گے۔ بلاول بھٹو بھی خوش فہم ہیں کہ پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) جو مسودات تیار کریں گی، ان کا آپس میں تبادلہ کریں گے اور مشترکہ نکات سامنے لائیں گے،ان کا موقف تو یہ ہے کہ عدالتی اصلاحات 25اکتوبر سے پہلے نہ ہوئیں تو پھر مشکل ہو گی۔ بلاول کی اس بات کو تحریک انصاف نے جن معنوں میں لیا اس کا اظہار بیرسٹر علی ظفر نے بھری عدالت میں یہ کہہ کر دیا کہ اخبارات میں تو یہ سرخی بھی لگی ہے کہ 25اکتوبر تک ترامیم نہ ہوئیں تو پھر مشکل ہو گئی، لارجر بنچ کے قائد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواباً کہا کہ ان کے علم میں یہ نہیں۔

اب اگر یہ ذکر آ ہی گیا ہے تو پھر نظرثانی اپیل کے دوران عدالت میں جو ہوا اس کا ذکر بے جا نہیں ہوگا، جب سے آئینی ترامیم کا ذکر چلا ہے، قاضی فائزعیسیٰ کی ذات کو ہدف بنا لیا گیا ہے، بانی تحریک انصاف عمران خان مسلسل عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے جانبداری کا الزام لگاتے جا رہے، انہوں نے کئی بار کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ ان کے مقدمات سے الگ ہو جائیں، حالیہ سماعت کے دوران ان کی طرف سے پیش ہونے والے بیرسٹر علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا اور اس کو آئین کے خلاف قرار دیا، ان کا عدالت میں مکالمہ بھی ہوا اور چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ ان کی توہین کی جاتی ہے جو ناقابل برداشت ہے اسی حوالے سے ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب ایک شخص نے خود کو تحریک انصاف کا وکیل ظاہر کیا اور فاضل چیف جسٹس کے لئے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے علاوہ دھمکی دی کہ عدالت کے باہر ان کے پانچ سو وکیل کھڑے ہیں، وہ مخالف فیصلے نہیں دینے دیں گے، چیف جسٹس نے اس فرد کو عدالت سے تو نکلوا دیا تھا، تاہم افسوس کا اظہار ضرور کیا اور کہا کہ کیا بار کونسل اس وکیل کے خلاف کارروائی کرے گی؟ اس کا مثبت جواب آیا، تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے مذکورہ شخص کو گرفتار کرلیا ہے، اس کی گرفتاری عدالت کے باہر مظاہرہ کرنے سے حوالے سے درج مقدمہ میں ہوئی ہے۔ اس مقدمہ میں تحریک انصاف کی قریباً پوری قیادت شامل ہے، اسی دوران قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ایسی بات کہی جس سے مجھے ان کے دکھ کا اندازہ ہوا کہ ان کے خلاف جو اور جس انداز کی نفرت انگیز، شرمناک مہم جاری ہے اس سے ان کو ذاتی طورپر شدیدصدمہ ہوا ہے۔ یہ بات یقینا سوشل میڈیا مہم پر ان کے خلاف جاری مہم کے حوالے سے کہی گئی ہو گی جو الزام تراشی اور بدزبانی پر مشتمل ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ”ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں نہیں“ ان کی یہ بات سو فیصد سے بھی زیادہ درست ہے کہ ان کے والد محترم قاضی عیسیٰ تحریک پاکستان کے نوجوان رکن تھے اور انہوں نے 1940ء میں قرارداد پاکستان والے جلسے میں خطاب بھی کیا اور قائداعظم ان کو پسند بھی کرتے تھے۔

ویسے محترم چیف جسٹس کی اس بات کو ان کے عمل سے تقویت ملتی ہے کہ حال ہی میں انہوں نے زیارت میں جناح ہاؤس سے ملحق اپنی قیمتی زمین تحفہ کے طور پر دے دی اور منتقلی کے کاغذات مکمل ہوئے تو اس کی تشہیر ہوئی۔ یوں ان کی ذا ت پر کیچڑ اچھالنے والوں کو ان کا یہ جواب مسکن ہے، ویسے بھی یہ عام رواج ہو گیا ہے کہ جو فیصلہ پسند نہ آئے اسے تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے احتیاط کی اور ”چمک“ کا اشاراتی لفظ استعمال کیا تھا لیکن اب تو تنقید کا ایسا رواج چلا کہ ریٹائرڈ تو ریٹائرڈ "Sitting" فاضل جج حضرات  بھی زد میں آتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے تو اپنے خلاف ریفرنس کا دفاع کیا اور سرخرو ہوئے انہوں نے ریٹائرمنٹ کا مشورہ رد کرکے مقابلہ کیا تھا اور جب وہ اس ریفرنس سے بری ہو گئے تو ریفرنس والے حضرا ت کو تکلیف تو ہونا تھی جس کا اظہار اب تک کیا جا رہا ہے۔

بات تواپنے مولانا فضل الرحمن سے شروع کی تھی چلی کسی اور طرف گئی، چلیں یہ بھی ایسی بات تھی کہ دل کی بھڑاس نکل گئی، کیونکہ عدلیہ میں یہ سلسلہ بھی دیر سے شروع ہے اور پوری دنیاجانتی ہے کہ سابقہ چیف جسٹس حضرات کے دور میں کس کو کہاں کہاں سے ریلیف ملتی رہی اور اکثر جگہ سے اب بھی مل رہی ہے، حتیٰ کہ نیب کے ایک ریفرنس میں تفتیشی افسر پر 29پیشیوں کے بعد بھی جرح مکمل نہیں ہوسکی کہ ملزموں کے وکیل غیر حاضر ہوجاتے ہیں، شاید اسے ہی سپیڈی ٹرائل (تیز تر سماعت) کہتے ہیں، حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنانے سے روک رکھا ہے۔

خیر بات تو مولانا فضل الرحمن کی تھی اور پھر قلم بھٹک گیا، اب عرض کروں کہ مولانا کا احترام سب کرتے ہیں اور اس میں کہیں سے کوئی کمی ظاہر نہیں ہو رہی، تاہم میری معلومات کے مطابق اب وہ ”ٹرین مس“ کر گئے ہیں کہ ان کی ضرورت تو یقینا ہے لیکن ترامیم کی منظوری کے لئے ان کے ووٹوں کی جو حتمی ضرورت تھی وہ اب نہیں ہے اور شاید اسی لئے اب برسراقتدار حضرات نے اگلے ہفتے کے دوران ترمیمی پیکیج منظور کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ اطلاع کے مطابق اب ان کے ووٹوں کے بغیر بھی دوتہائی اکثریت پوری ہو جائے گی لیکن ان کا احترام اور ان کی بزرگی قائم ہی رہے گی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے نظرثانی کی اپیلیں منظورکرکے آئین کے آرٹیکل 63اے کی سابقہ آئینی صورت بحال کر دی ہے اور آزاد اراکین کو موقع مل گیا ہے کہ وہ رائے شماری کے وقت فیصلہ آزادی ہی سے کر سکیں، ان کی تعداد 39ہے اور الیکشن کمیشن نے تاحال ان کی کسی جماعت میں شمولیت کا نوٹیفکیشن نہیں کیا اور 8رکنی اکثریتی فاضل جج حضرات کی ہدایت کو نظر انداز کیا ہے کہ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں موجود ہیں اور یہاں بھی آئین کو دوبارہ سے تحریر کرنے کا اعتراض موجود ہے کہ فاضل جج حضرات نے وہ کچھ بھی دیا جو مانگا نہ گیا اور ان کو دیا جنہوں نے مانگا بھی نہیں تھا چنانچہ میرے اپنے خیال میں یہ آزاد حضرات اب بھی آزاد ہیں اور بقول فیصل واؤڈا تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگوں کی اکثریت انتہا پسندانہ رویے کے خلاف اور جماعت چھوڑنے پر آمادہ ہے، ان کو راستہ ملنے کی دیر ہے اور یہ راستہ اب مل گیا ہے۔

میں نے اپنے ایک کالم میں گزارش کی تھی کہ فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ سے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنا کر ایسی درخواستوں کا فیصلہ (حتمی) کرا دیں جس کا تعلق آئین سے ہے ویسے مولانا کی یہ بات بالکل درست کہ فاضل اور معزز مہمانوں کی آمد اور شنگھائی تنظیم جیسے اہم سربراہی اجلاس کے موقع پر ملک میں کسی نوعیت کا احتجاج یا جلسہ جلوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا موقف تو اول روز سے قومی یکجہتی کا ہے اور اب اس موقع پر پھر عرض ہے کہ براہ کرم تنخواہوں میں اضافے پر اکٹھے ہوتے ہو تو ملک کے لئے بھی ہوجاؤ۔

مزید :

رائے -کالم -