پاکستان کرکٹ، اناڑیوں کے ہاتھ میں!
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بنگلہ دیش کی ٹیم فاتح رہی۔ اس نے دونوں ٹیسٹ بڑے فرق کے ساتھ جیت کر وائٹ واش کر دیا یوں پاکستان سے بارہ ٹیسٹ ہارنے کے بعد جو پہلی فتح حاصل کی وہ پاکستان کی ہوم گراؤنڈ پر وائٹ واش ہے میچ دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ بنگلہ دیشی کھلاڑی پورے جذبے، نظم و نسق اور یکجہتی کے ساتھ کھیلے۔ حتیٰ کہ شکیب الحسن جو اپنے ملک میں قتل کے کیس میں مطلوب ہے۔ اس کا دباؤ لئے بغیر اچھا کھیلا۔ اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے شاہینوں کو باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ سمیت ہر شعبہ میں مات دی اور ہمارے بہادر منہ دیکھتے رہے۔ نتائج کی روشنی میں ملک بھر کے میڈیا نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا اور ماہرین بھی ایسے ایسے نکات نکال کر لا رہے ہیں کہ ہم جیسا شوقین حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ٹیلیویژن پر بیٹھے ماہرین کے اپنے ہی خیالات اور تعصبات ہیں اس لئے ان کو یہ موقع مل گیا کہ وہ سارا بوجھ بابر اعظم پر منتقل کر دیں۔ جن سے بجا طور پر سب کو توقعات تھیں لیکن بابر اعظم نے اپنی گم شدہ فارم کا مظاہرہ جاری رکھا۔ میں بھی ان سے بہت توقعات رکھتا ہوں لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ نے جو رویہ رکھا اسے نظر انداز ہی کیا جا رہا ہے۔ بات بابر اعظم کی چلی ہے تو اسی کو مثال بنا لیتے ہیں۔ بابر اعظم عالمی ریکارڈ ہولڈر اور مانا ہوا بلے باز ہے اور فیلڈر بھی بہت اچھا ہے تاہم جب سے ایک شوگر کنگ نے دوبئی میں برسر عام اس پر گروپنگ اور بلیک میلنگ کا الزام اور فکسنگ کا شبہ ظاہر کر کے قیادت سے الگ کیا تب سے وہ سخت نفسیاتی دباؤ میں ہیں جس سے وائٹ بال کپتانی مل جانے کے باوجود بھی باہر نہیں نکل سکا اس لئے یہ بھی ضرورت ہے کہ وہ کسی ماہر نفسیات کے ساتھ رضا کارانہ طور پر چند نشستیں کر لے کہ دنیا بھر میں قیادت کو روگ نہیں بنایا جاتا بلکہ کوہلی جیسی اور بھی مثالیں موجود ہیں کہ کھلاڑیوں نے کھیل پر توجہ کے لئے از خود قیادت سے دستبرداری اختیار کی۔ دنیائے کرکٹ میں یہ معمول ہے کہ ماضی کے کپتان دوسرے کھلاڑیوں کی قیادت میں کھیلتے ہیں۔ اس کی مثال برطانوی کھلاڑی جوروٹ بھی ہیں۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم میں بھی کئی بار ایسا ہو چکا اور آسٹریلین کمنز کی قیادت میں تو بہت سینئر کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ اس لئے قیادت کو روگ بنانا بہتر عمل نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ہوتا ہے کیونکہ قیادت میرٹ پر نہیں پرچی پر ملتی ہے اور جب یہ نہ رہے تو پھر کھیل بھی نہیں رہتا۔ اس کی ایک مثال ہمارے شاہین شاہ آفریدی بھی ہیں اگرچہ ان کا رنج اپنے طور پر درست ہے کہ ان کو قیادت اور نائب قیادت سے غیر معمولی طور پر الگ کیا گیا۔ حتیٰ کہ اس کو حالیہ سیریز میں دوسرے میچ میں باہر بٹھا دیا گیا اور یہ توہین آمیز طریقے سے ہوا میرے خیال میں تو ایک بہترین کھلاڑی (باؤلر) کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی جو یقیناً عالمی سطح کے باؤلرز میں شامل ہے اور بیٹنگ پر بھی توجہ دے رہا تھا اگر اسے میرٹ سے ہٹ کر کپتان اور نائب کپتان بنایا گیا تو اسے ہٹانے کے لئے بھی بہتر طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ ہماری کرکٹ کا ماضی ظاہر ہے کہ ہم نے بڑے بڑے کھلاڑی ضائع کئے احمد شہزاد اور عمر اکمل معمولی سی مثالیں ہیں۔
بات طویل ہو گئی اور ٹیسٹ سیریز سے ہٹ گئی میں کرکٹ کا شائق ہونے کی وجہ سے میچ دیکھنے کا گناہ گار ہوں۔ اگر لائیو نشریات میں سے کچھ حصہ نہ دیکھ سکوں تو بعد میں سپورٹس چینل پر دکھائے جانے والے کھیل کو دیکھ کر کمی پوری کر لیتا ہوں میں کسی تعصب کے بغیر دونوں ٹیسٹ میچوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہر دو ٹیسٹ میچوں میں بڑا فرق قیادت کا رہا۔ بنگلہ دیشی کپتان کی فیلڈ پلیسنگ اور باؤلروں کی تبدیلی بروقت اور اچھی رہی۔ یوں بھی بنگلہ دیشی باؤلروں نے موقع کی مناسبت سے بہترین باؤلنگ کی ا ور وکٹ کی جو سپاٹ ان کو بہتر ملی اس کے مطابق لینتھ کو برقرار رکھا۔ میرے لئے بنگلہ دیش ٹیم کے تسکین اور حسن مثال تھے کہ تھوڑا عرصہ قبل یہ پچھلی صفوں میں تھے اور اب محنت کر کے ورلڈ کلاس باؤلر بن چکے ہیں اسی طرح سپنر مہدی نے مہارت کا مظاہرہ کیا۔ نہ صرف گیند کو ٹرن کرایا بلکہ لینتھ کے مطابق اندر گیند کر کے بیٹرز کو مجبور کیا کہ وہ چانس دیں۔ شکیب الحسن تو تجربہ کار ہے اور وہ دباؤ کے باوجود اپنا تجربہ کام میں لایا۔ ایک بار بابر اعظم کو اس نے ایل بی ڈبلیو کیا تو دوسری بار دوسرے سپنر سے بھی اعظم اسی طرح چلتا بنا۔
میں ذکر کر رہا تھا قیادانہ صلاحیت کا تو ذرا اپنے قائد شان صاحب کی شان ملاحظہ ہو کہ دوسرا ٹیسٹ بھی اس لئے ہار گئے کہ بنگلہ دیش کو دباؤ میں لا کر بھی آؤٹ نہ کر سکے اور لٹن داس کے ساتھ مہدی نے 165 رنز کی پارٹنر شپ بنا کر سارے خواب چکنا چور کر دیئے شان مسعود کی قیادت کا یہ عالم کہ انہوں نے خود ان دونوں کھلاڑیوں کو جمنے کا موقع دیا پہلے تو جمے ہوئے کھلاڑیوں کے لئے فاسٹ باؤلرز ہی کو آزماتے چلے گئے کہ ان کی وجہ سے 26 رنز پر چھ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ یہ خیال نہ کیا کہ موسمی حالات کیا ہیں جس کے باعث کھلاڑی جلد تھکن کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے ان سے زیادہ اوور کرائے اور پھر جب ابرر احمد کو باؤلنگ دی تو نہ صرف اسے تبدیل کرنا بھول گئے بلکہ دونوں اطراف سے سپن اٹیک سے بھی دستبردار ہی رہے۔ حالانکہ کرکٹ کا یہ بھی ایک طریقہ یا اصول ہے کہ جب ریگولر باؤلر ناکام ہو رہے ہوں تو کسی سٹاک باؤلر کو استعمال کر کے کھلاڑیوں کی جوڑی توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا تجربہ درست ثابت ہوا جب سلمان آغا کے ہاتھوں لٹن داس آؤٹ ہوئے اور اس نے ایک اور وکٹ بھی لی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میں صائم ایوب سٹاک سپن باؤلر کے طور پر موجود تھے جو اندر گیند کرتے اور ان کی گیند گھومتی بھی ہے۔ جس طرح بنگلہ دیشی سپنر مہدی کو سپورٹ ملی ایسے ہی صائم ایوب کو بھی مل سکتی تھی لیکن شان ایسا نہ کر سکے۔ ان کے تو اپنے اندر خود اعتمادی نہیں تھی۔ اگر عبداللہ شفیق۔ بابر اعظم اور دیگر کھلاڑیوں نے کارکردگی نہیں دکھائی تو شان نے کون سا تیر مارا جو اب قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔
میں کرکٹ کا شائق ہونے اور اس کھیل سے دیرینہ وابستگی کے حوالے سے عرض کر سکتا ہوں کہ کھیل کی خرابی کا سبب بورڈ اور پیر تسمہ پا انتظامیہ ہے۔ غور کریں تو آپ کو بہت سے اہل کار ایک یا دوسری شکل میں نظر آئیں گے اور ہر بار چیئرمین بورڈ نابغہ اور کھیل سے غیر متعلق ہی ملیں گے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اگر آپریشن کرنا ہے تو پھر اوپر سے نیچے تک کریں اور ہ جو نئے نئے فارمولے بنا کر آزمودہ حضرات کو ذمہ داری دے رہے ہیں اس سے باز رہیں۔ کب تک ایک ہی شخص کو لا کر کھلاڑیوں کا مستقبل تباہ کراتے رہیں گے، آپریشن جنرل کریں۔