کلین سویپ

  کلین سویپ
  کلین سویپ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اس کی ہوم گراؤنڈ پر دو میچوں پر مبنی ٹیسٹ سیریز ہرا دی اور صرف ہرائی نہیں کلین سویپ کر دیا، جسے وائٹ واش بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیشی ٹیم کے سامنے کسی بھی حوالے سے ٹھہر ہی نہیں سکی۔ ٹیسٹ کرکٹ کے کپتان شان مسعود کا دوسرے ٹیسٹ میچ کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ پچ کو نہیں سمجھ سکے اور پچ کی مناسبت سے ٹھیک کھلاڑیوں کو نہیں کھلا سکے، یعنی اندازہ لگائیں کہ ٹیم کا کپتان اس بندے کو بنا دیا گیا ہے جسے پچ کا تجزیہ کرنا ہی نہیں آتا، وہ میچ کیا کھیلے گا؟ وہ میچ کیسے جیتے گا؟، اور دوسری بات یہ ہے کہ پچ صرف پاکستان کی ٹیم کے لیے خراب نہیں تھی اسی پیج پر بنگلہ دیشی ٹیم بھی کھیلی اور اس نے دونوں میچ جیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی غلطیوں، اپنی کمزوریوں، اپنی نااہلیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کو ہم نے اپنا وتیرہ بنا لیا ہے، جو ظاہر ہے کہ مناسب بات نہیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے۔ کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیم پاکستان سے کوئی ٹیسٹ میچ جیتی ہے، بلکہ ٹیسٹ میچ نہیں جیتی پوری سیریز ہی جیت گئی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے لیے ایک نیا ریکارڈ ایک نئی تاریخ ہے، اور یہ ہمارے لیے بھی ایک نیا ریکارڈ ایک نئی تاریخ ہے کہ قحط الرجال کے بارے میں سنتے آئے تھے، لیکن قحط الرجال کیا ہوتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ ہونے لگا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان تین بڑے کھیلوں ہاکی، سنوکر اور کرکٹ کا عالمی چیمپئن تھا، اور آج یہ صورت حال ہے کہ ہم اس ٹیم سے نہ صرف میچ بلکہ سیریز ہار گئے ہیں جس نے پاکستان میں کرکٹ کئی دہائیوں بعد عالمی سطح کی کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ 

سوال یہ ہے اور یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ زوال کی اس انتہا تک پہنچنے کی وجوہات کیا ہیں؟ میرے خیال میں اس کی وجوہات اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہیں کہ ہم نہ اپنے آپ سے مخلص ہیں نہ اس ملک اور معاشرے کے ساتھ مخلص ہیں۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے پیسہ کمانے کی اور آگے بڑھنے کی۔ ایسے میں جائز ناجائز کون دیکھتا ہے؟ بڑی حیرت ہوتی ہے کھلاڑیوں کے رویوں کو دیکھ کر کہ ایک وقت وہ ہوتا ہے وہ کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کے لیے ہر طرح کی بھاگ دوڑ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن جب وہ ٹیم میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر یوں محسوس کرانے لگتے ہیں جیسے ان کے بغیر کوئی جیت ممکن ہی نہیں ہے۔ ان میں ایسا رویہ آ جاتا ہے، جو تباہی کی طرف پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ دو ماہ پہلے امریکہ میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا تھا تو اس وقت بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اس سے مختلف نہیں تھی اور وہ فائنل تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس وقت کرکٹ کے ارباب بست و کشاد نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کرکٹ ٹیم میں وسیع پیمانے پر سرجری کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ سرجری کہاں ہے؟ کب ہو گی؟ کیسے ہو گی؟ کیونکہ ٹیم کی کارکردگی تو ویسی ہی ہے جیسی دو مہینے پہلے تھی، جیسی چھ مہینے پہلے تھی، جیسی ایک سال پہلے تھی اور مستقبل میں بھی اس کے راہ راست پر آنے کی کوئی توقع نظر نہیں آتی۔

 میرے خیال میں  پاکستان میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کو زوال کی اس نہج تک پہنچانے میں اس بندے کا بہت کردار ہے جس نے سب سے پہلے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے،۔ بھائی، یہ کیا بات ہوئی؟ ایک ٹیم کے اندر جیتنے کا جذبہ ہونا چاہیے، اور وہ جذبہ 100 فیصد ہونا چاہیے۔ جب ہم خود ہی اسے مارجن دے رہے ہیں کہ تم اگر ہار بھی جاؤ گے تو ہماری تمہارے ساتھ محبت کم نہیں ہو گی تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ جیتتا پھرے؟ میرے خیال میں کرکٹ ٹیم میں ایک بڑی سرجری کی واقعی ضرورت ہے، اور وہ سرجری جتنی جلدی ہو جائے گی اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے اور اس میں جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی مسائل بڑھتے جائیں گے۔ میری تجویز یہ ہے کہ کرکٹ کے عالمی سطح کے کھلاڑیوں کی تعداد کو محض بیس پچیس تک نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ 100 یا اس سے بھی زیادہ ہونے چاہئیں اور ٹیم میں شامل اگر کوئی کھلاڑی مناسب کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا، تو اسے فی الفور ہٹا کر اس کی جگہ پر کسی اچھے کھلاڑی کو آگے لے کے آنا چاہیے۔ ٹیم کے اندر پائی جانے والی گروپ بندی کو ختم کرنے کے لیے بھی کام ہونا چاہیے، اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ باڈی جو کھیلوں اور کھلاڑیوں کے معاملات کو دیکھتی ہے اس سے باز پرس ہونی چاہیے کہ بھائی یہ کیسی ٹیم سلیکٹ کی؟ یہ کیسے کھلاڑی ٹیم میں شامل کیے کہ وہ ہارتے ہی چلے جا رہے ہیں، ملک کا نام ڈبوتے ہی چلے جا رہے ہیں؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ زوال صرف کرکٹ تک یا کسی ایک کھیل تک محدود نہیں ہے۔ شعبہ زندگی کے کسی بھی پہلو کو اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں پر رشوت، کرپشن، بے ایمانی، بد معاملگی اور بد اطواری ہی نظر آئے گی۔ کسی بھی محکمے کا جائزہ لے لیں، وہاں پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ میرا خیال یہ ہے کہ قومی زندگی میں پائی جانے والی انہی خرابیوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں کھیلوں کا شعبہ بھی تباہ ہو رہا ہے۔ تعلیم کے معاملات دیکھ لیں، صحت کے حوالے سے صورت حال کا جائزہ لے لیں، کاروبار کو دیکھ لیں، تجارت کے ایشوز کو اٹھا کر دیکھ لیں، ہر جگہ بس ایک ہی معاملہ ہے اور ایک ہی صورت حال ہے۔ زوال، زوال اور زوال، اور میرا خیال یہ ہے کہ یہ زوال اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکیں گے، خود احتسابی نہیں کریں گے، اور اپنے وطن سے محبت کے حوالے سے اپنے دلوں کو صاف نہیں کریں گے۔ جب تک ہم اپنی قومی زندگی میں سنجیدہ نہیں ہوں گے، اور تدبر اختیار نہیں کریں گے، ایسے کلین سویپ ہمارا مقدر بنتے رہیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -