اس قوم کی تھیوری ہی یہ ہے”کم نہ کر تے غم نہ کر“ اور”فکر نہ کر تے ذکر نہ کر“اور ”آؤ باتیں کریں“ ہم سارا دن ہی نہیں ساری عمر باتوں کے گرد گزار دیتے ہیں

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:131
دھول کا پھول؛
میرے پاس اب نوکری کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہ تھا۔ میں سی ایس ایس امتحان کی تیاری کرنے لگا۔ بی بلاک ماڈل ٹاؤن میں انگریزی کے ایک استاد محترم ضیاء الرحمن ابرا ر بھائی کے گھر کے سامنے رہتے تھے۔ جو بہت سے طلباء کو اس امتحان کے لئے انگریزی گرائمر اور مضمون لکھنے کی تیاری کروا چکے تھے۔ میں بھی انگریزی کی تیاری کے لئے ان کے ہاں جا پہنچا۔ ہفتے میں 3 بار مجھے کسی بھی دئیے گئے عنوان پر مضمون لکھنا ہو تا تھا۔ یہ میرے لئے عذاب بن جاتا تھا۔ میں مضمون لکھتا استاد محترم درستگی کرتے اور مجھے پھر اسے fair کرنے کو کہتے۔ میں حکم کی معمیل کرتاوہ دوبارہ بہت سے نئے الفاظ لکھ کر کہتے؛”مجھے لگتا ہے یہ لفظ پہلے سے لکھے گئے لفظ سے زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ استاد صاحب کی vocablaryبلا کی تھی۔اس محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے انگریزی eassy اور گرائمر کے پیپر میں ٹاپ کیا۔بدقسمتی سے میڈیکل گراؤنڈزپر بورڈ آؤٹ ہو گیا تھا۔ وجہ وہی بچپن میں لگی آنکھ کی چوٹ تھی۔ اپنی اس نااہلی پر میں نے اس وقت کے مومن صدر صاحب کو اپیل کی اور ایک اپیل وزیر اعظم محمد خاں جونیجو صاحب کو بھی کہ مجھے ”ہیندی کیپ“ کوٹہ پر consider کیا جائے۔ مومن صدر کے جواب کا تو انتظار رہا البتہ وزیر اعظم سیکرٹیریٹ کی جانب سے جواب ضرور موصول ہوا کہ ہم اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ مومن صدر سے ملنے میں، شعیب اور وقاص(وکی) وکی کی ایف ایکس میں صبح سویرے راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئے۔ ٹرکی موڑ پر نماز فجر کے دوران ایک عدد بچھو سے بھی پالا پڑا۔ مہربانی وہ بنا ڈسے کسی کونے میں چھپ گیا تھا۔ پنڈی صدر کے سیکرٹیریٹ پہنچے۔ وہاں ایک باریش بریگیڈئیر صاحب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے کمال گولی کراتے کہا؛”چند روزمیں آپ کو میرے دفتر سے جواب مل جائے گا۔“ یار کیسی کیسی حماقت نہیں کی میں نے۔ یہ چند روز کئی دھائیوں پر پھیلے ہیں ویسے ہی جیسے مومن صدر نے 90دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ میرے تجربے میں کبھی کوئی باریش کسی کے کام نہیں آیا۔اس قوم کی تھیوری ہی یہ ہے؛”کم نہ کر تے غم نہ کر۔“ اور”فکر نہ کر تے ذکر نہ کر۔“اور ”آؤ باتیں کریں۔“ ہم سارا دن ہی نہیں ساری عمر انہی باتوں کے گرد گزار دیتے ہیں۔ٹھیک کہا نا جناب۔
بہو کی تلاش؛
چلیں آپ کو باتوں باتوں میں ایک اور بات بھی سنا دوں۔ ہم پاکستانی ایک لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ بیٹے، بھائی جیسے ہی جوان ہوتے ہیں ماں باپ اور بہنیں رشتہ کی تلاش شروع کر دیتی ہیں اور اس لحاظ سے میں زیادہ خوش قسمت نہیں تھا کہ زیادہ دیر آزادی سے زندگی بسر کرسکتا۔اگر رشتہ کوئی بزرگ یا گھر کا بڑا خاندان میں ہی طے کر دیتا تو سب پر وہ فیصلہ ماننا لازم ہوتا۔ جوان ہوتے ہی لڑکی والوں کی طرف سے جلدی شادی کے پیغام ملنے لگتے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر رشتہ کی تلاش زور و شور سے شروع ہو جاتی ہے۔ ادھر لڑکے کو نوکری ملی ادھر اگر لڑکی کی تلاش بھی ہو چکی تو بس چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات ہی ہوتی ہے۔ لڑکابیچارہ سنبھل بھی نہیں پاتا تو بیاہ جاتا ہے اور شادی کے چند سال بعد ہی بقول جان ایلیا؛”نیند کی گولیاں میری بیوی کھاتی ہے اور سکون سے میں سوتا ہوں“ کا معاملہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔ بیچارے مرد کو پوری طرح سے سٹیل ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا لیکن بیوی مل چکی ہوتی ہے اور پھر زندگی بھر کے لئے ذمہ داریوں کا ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ اس بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے یہ لاغر اور وقت سے پہلے پھول سے دھول بن جاتا ہے۔کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جو نوکری کے بعد چند سال اپنی زندگی جی کر ان ذمہ داریوں کی طرف آتے ہیں۔ بہر حال یہ ہمارا معاشرہ اور ہماری رسوم ہیں۔جن سے لڑنا بیکار ہی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔