وہ سفید براق شلوار قمیص میں ملبوس سفید ہی ٹوپی اوڑھے چارپائی پر دراز تھے۔ ہم نے کمرے کے دروازے سے السلام علیکم کہا، آواز سنتے ہی انہوں نے ہماری طرف نظریں گھمائیں، ہمیں دیکھتے ہی بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔
خندہ رو ہو کر فرمانے لگے’’حضرت تشریف لائیے‘‘! ان کے ساتھ ہماری شناسائی آج کی نہیں عرصہ کی ہے اسی طویل محبت کا سہارا لے کر میں نے عرض کیا جناب آپ میرا نام بھول گئے میرا نام حضرت نہیں صرف محمد طاہر ہے۔ ماہنامہ التجوید کا مدیر ہوں۔
میرے جملے سنتے ہی چہرے پر بشاشت دوڑ گئی۔ تبسم سے چہرہ کھل گیا، کمرے کے اندر آنے کا حکم دیا اور کہنے لگے آپ ہمارے بزرگوں سے قریبی تعلق رکھنے والے ہیں، آپ بھی ہمارے بزرگ ہیں ہم اپنے بزرگوں کو کب بھولنے والے ہیں، ہمارے اکابر کے تعلق کے حوالے سے آپ ہمارے بھی بزرگ ہی نہیں ہمارے مربی ہیں۔
میں نے عرض کیا آپ کی محبت اور عزت افزائی اور تکریم پر شکرگزار ہوں۔ اسی دم اپنے خادم کو پکارے ،’’انس! جلدی سے کرسی لاؤ۔‘‘
آپ نے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ میں نے تعمیل کی لیکن میرے بیٹھنے تک وہ خود کھڑے ہی رہے۔ یہ ان کی تواضع کا انداز، ان کی عظمت اور اعلیٰ اخلاق کی دلیل تھی جو ان کو اپنے اکابر بزرگوں سے ورثہ میں ودیعت ہوا تھا۔
میں نے عرض کیا مولانا آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اور دنیا خود متاع قلیل ہے۔ اگر اجازت ہوتو اس متاع قلیل سے کچھ اپنا حصہ بانٹ لوں۔ اس سوال پر آنکھیں جھکا لیں، جو ان کی تواضع اور انکسار کا پتہ دے رہی تھیں۔ میں نے سوالیہ انداز اختیار کیا۔
مولانا اجازت ہو تو کچھ سوالات ذاتی زندگی کے حوالے سے پوچھ لوں۔ فرمانے لگے تعارف نامے تو بڑے بڑے نامی گرامی اور مشاہیر کے ہوتے ہیں میں تو حقیر فقیرسا انسان ہوں۔ بہرحال جو آپ پوچھیں گے یادداشت کے مطابق عرض کروں گا۔ اس طرح سوال جواب کی نشست جمی۔
سوال:مولانا آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب:میری پیدائش دسمبر1945ء کی ہے۔ گویا تشکیل پاکستان سے ڈیڑھ سال قبل۔ ہمارا خاندان لوکل ہے، ہم تشکیل پاکستان سے قبل ہی یہاں آباد تھے۔ اس طرح میں پاکستان سے ڈیڑھ برس بڑا ہوں۔ ہماری بستی اور موضع کا نام گرواں ہے۔
میری پیدائش اسی گاؤں میں ہوئی۔ ہماری برادری کا نام بھی گرواں ہی ہے۔ یہی ہمارا وطن اصلی ہے۔ یہ بستی، مبارک پور کے قریب ہے۔ ضلع بہاولپور لگتا ہے۔
سوال:بہاولپور کے حوالے سے کچھ تفصیل بتلائیں گے؟
جواب:بہاولپور بہت بڑی ریاست تھی، یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔ بعض لوگ اسے پس ماندہ کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ بات درست نہیں۔ بہاولپور تعلیمی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ علاقہ تھا اور ہے۔
عباسی خاندان بڑا علم دوست خاندان تھا۔ تقریباً ایک صدی پہلے یہاں پر جامعہ عباسیہ کے نام سے بہت عظیم درس گاہ قائم کئی گئی تھی،علم کے متوالے لوگ اس درس گاہ میں حصول علم کے لیے رخ کرتے تھے۔اس درس گاہ نے بڑے مشاہیر اہل علم پیدا کیے۔ آج بھی جامعہ عباسیہ بہاولپور کا ایک نام ہے۔
سوال:آپ کے زمانے میں جامعہ عباسیہ کے شیخ الجامعہ کون تھے؟
جواب:اس وقت مولانا غلام محمد گھوٹوی شیخ الجامعہ تھے۔ ان کے نام کی تختی جامعہ کے صدر دروازے پر نصب ہے۔ اسی کو آج اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کہا جاتا ہے جو پاکستان کی اہم یونیورسٹی ہے۔ اس علاقہ بہاول پور میں اور بھی چھوٹے چھوٹے دینی مدارس موجودتھے۔
پورے علاقے کا اجتماعی مزاج دینی تھا۔
نواب آف بہاولپور دوسرے تعلیمی اداروں کی بھی مالی امداد کرتے تھے۔ جب پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی تو اس کی پرانی عمارت کی تعمیر کے لیے نواب آف بہاولپور نے کثیر مالی تعاون کیا۔
نواب صاحب کے نام کی تختی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی دیوار پر لگی ہوئی ہے جو ان کی علم دوستی کی علامت ہے۔تشکیل پاکستان کے وقت نواب آف بہاولپور بہت خوش تھے۔ انہوں نے اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا۔
تشکیل کے وقت پاکستان کی مالی حالت کمزور تھی۔ نواب صاحب نے قائداعظم کے ساتھ تعاون کیا اور کچھ عرصہ کے لیے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ریاست بہاولپور کے خزانہ عامرہ سے ادا کیں۔
سوال:مولانا آپ کا وطن اصلی کون سا ہے؟
جواب:میں نے عرض کیا ہے کہ میری پیدائش موضع گرواں میں ہوئی جو ہمارا جدی پشتی گاؤں ہے۔ میرا بچپن بھی اسی گاؤں میں گزرا۔
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریب دوسرے گاؤں بستی فقیراں کے مدرسہ رفیق العلماء میں حاصل کی جو جامعہ عباسیہ کے تحت تھا پھر موضع ڈتہ بلوچ کے سکول اور مدرسہ میں پڑھتا رہا۔ یہاں ایک اچھا بڑا مدرسہ تھا میں نے اس مدرسہ میں موقوف علیہ تک کتابیں پڑھیں۔(جاری ہے)
سوال:آپ کے استاد کون تھے؟
جواب:میرے استاد کا نام مولانا حافظ اللہ بخش تھا جو جامعہ عباسیہ بہاولپور سے فارغ تھے۔
سوال:کیا اس مدرسہ میں صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی؟
جواب:مدرسہ رفیق العلماء بستی ڈتہ بلوچ میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم کا بندوبست بھی تھا۔ مولانا حافظ اللہ بخش فارغ وقت میں درس نظامی پڑھاتے تھے۔
سوال:کیا آپ نے جامعہ عباسیہ کے ان مدارس کے علاوہ کسی اور درس گاہ سے بھی استفادہ کیا؟
جواب:جامعہ عباسیہ کے علاوہ میں نے قاسم العلوم ملتان میں داخلہ لیا اور وہاں سے دوبارہ مشکوٰۃ المصابیح پڑھی۔
سوال:آپ نے موقوف علیہ تک پڑھنے کے بعد دورہ حدیث کہاں سے کیا؟
جواب:دورہ حدیث کے لیے میں نے مخزن العلوم خان پور میں داخلہ لیا۔ یہاں پر مجھے مولانا عبداللہ درخواستی کی صحبت ملی جو بہت بڑے محدث تھے، مجھے ان کی خدمت میں رہ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی سعادت حاصل ہوئی۔
سوال:مولانا محمد عبداللہ کے ساتھ درخواستی کا لاحقہ کس وجہ سے ہے؟
جواب:درخواست، خان پور کے قریب ایک بستی کا نام ہے۔ مولانا عبداللہ اسی موضع کے رہنے والے تھے۔ اسی نسبت سے ان کو درخواستی کہا جاتا ہے۔ جیسے مجید لاہوری، گاماں پہلوان امرتسری وغیرہ کہا جاتا ہے۔